کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 283
’’وکذا حکیٰ الإجماع ابن ارسلان‘‘[1] [اسی طرح ابن رسلان نے اجماع کی حکایت کی ہے] مگر ابو عصمہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے کہ اس زمانے میں بنی ہاشم کو زکوات دینا اور ان کو لینا جائز ہے۔اسی روایت کی بنا پر متاخرین حنفیہ نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بنی ہاشم کو زکات لینا درست ہے،لیکن ابو عصمہ کی یہ روایت احادیثِ صحیحہ کے صریح خلاف ہے۔ایک نہیں بہت سی حدیثیں اس روایت کو رد کرتی ہیں اور عند الحنفیہ بھی اس روایت پر فتوی نہیں،کیونکہ یہ روایت ظاہر المذہب اور ظاہر الروایت کے خلاف ہے۔رسائل الارکان میں ہے: ’’ولا یجوز صرف الزکاۃ إلی بني ھاشم لما روي عن أبي ھریرۃ قال:أخذ الحسن بن علي تمرۃ من تمر الصدقۃ فجعلھا في فیہ فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:کخ کخ ارم بھا،أما علمت أنا لا تحل لنا الصدقۃ۔رواہ الشیخان،وفي الباب أحادیث کثیرۃ لا بعد في أن یدعیٰ تواتر معناھا۔۔۔وفي فتح القدیر:روی أبو عصمۃ عن أبي حنیفۃ أنہ یجوز في ھذا الزمان صرف الزکاۃ إلیٰ بني ھاشم،وإن کان ممتنعا في ذلک الزمان لظھور شدۃ الحاجۃ فیھم،ولا یعطیھم أحد صلۃ،وقد أفتیٰ بعض المتأخرین بھذہ الروایۃ،وھذا کلہ خطأ وغلط،لأنہ مخالف للنصوص القاطعۃ‘‘[2] انتھیٰ [بنی ہاشم کو زکات جائز نہیں ہے،اس کی ایک دلیل پہلے گزر چکی ہے اور یہ بھی ہے کہ حضرت حسن بن علی نے زکات کی کھجوروں میں سے ایک کھجور لے کر منہ میں ڈال لی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کو پھینک دے،کیا تجھے معلوم نہیں کہ ہمارے لیے زکات اور صدقہ حلال نہیں ہے؟ اس مضمون کی اتنی حدیثیں ہیں کہ ان کو معناً متواتر کہا جا سکتا ہے۔فتح القدیر میں ہے کہ ابو عصمہ نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے کہ اس زمانے میں بنی ہاشم کو زکات دینا جائز ہے،اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ممنوع تھا،کیوں کہ ان کو کوئی عطیہ نہیں ملتا اور ان کو حاجت تو آج بھی موجود ہے۔بعض متاخرین نے بھی اسی پر فتوے دیا ہے،لیکن اور یہ سب غلط اور خطا ہے،کیوں کہ نصوص کے برخلاف ہے] نیز ’’بحر الرائق‘‘ میں ہے: ’’أطلق الحکم في بني ھاشم،ولم یصرح بزمان ولا بشخص،للإشارۃ إلی رد روایۃ أبي عصمۃ عن الإمام أنہ یجوز الدفع إلیٰ بني ھاشم في زمانہ،وللإشارۃ إلی رد الروایۃ
[1] نیل الأوطار (۴/ ۲۴۰) [2] رسائل الأرکان (ص:۱۸۸)