کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 277
عنھا؟ قالت:نعم،قال:فصومي عن أمک۔وأخرج مسلم وأبو داود والترمذي من حدیث بریدۃ أن امرأۃ قالت:إنہ کان علیٰ أمي صوم شھر،فأصوم عنھا؟ قال:صومي عنھا۔ومن غیر الولد أیضاً لحدیث من مات،وعلیہ صیام،صام عنہ ولیہ،متفق علیہ،وبقراء ۃ یٰس من الولد وغیرہ لحدیث:اقرؤا علیٰ موتاکم یٰس،وبالدعاء من الولد لحدیث:أو ولد صالح یدعو لہ،ومن غیرہ لحدیث:استغفروا لأخیکم وسلوا لہ التثبیت،ولقولہ تعالیٰ:والذین جاؤوا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولإخواننا الذین سبقونا بالإیمان،ولما ثبت من الدعاء للمیت عند الزیارۃ وبجمیع ما یفعلہ الولد لوالدیہ من أعمال البر لحدیث:ولد الإنسان من سعیہ‘‘ انتھیٰ حاصل اور خلاصہ ترجمہ اس عبارت کا بقدرِ ضرورت یہ ہے کہ حق یہ ہے کہ آیت {وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِِنْسَانِ اِِلَّا مَا سَعٰی} اپنے عموم پر نہیں ہے اور اس کے عموم سے اولاد کا صدقہ خارج ہے،یعنی اولاد اپنے مرے ہوئے والدین کے لیے جو صدقہ کرے،اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور اولاد اور غیرِ اولاد کا حج بھی خارج ہے،اس واسطے کہ خثعمیہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد جو اپنے والدین کے لیے حج کرے،اس کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور شبرمہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حج کا ثواب میت کو غیر اولاد کی طرف سے بھی پہنچتا ہے اور اولاد جو اپنے والدین کے لیے غلام آزاد کرے تو اس کا بھی ثواب والدین کو پہنچتا ہے،جیسا کہ بخاری میں سعد کی حدیث سے ثابت ہے اور اولاد جو اپنے والدین کے لیے نماز پڑھے یا روزہ رکھے،سو اس کا بھی ثواب والدین کو پہنچتا ہے،اس واسطے کہ دارقطنی میں ہے کہ ایک مرد نے کہا:یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ تھے،ان کی زندگی میں ان کے ساتھ نیکی و احسان کرتا تھا،پس ان کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ کیونکر نیکی کروں ؟ آپ نے فرمایا:نیکی کے بعد نیکی یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی نماز پڑھ اور اپنے روزے کے ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی روزہ رکھ۔صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا:یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں مر گئی اور اس کے ذمے نذر کے روزے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بتا اگر تیری ماں کے ذمے قرض ہوتا اور اس کی طرف سے تو ادا کرتی تو ادا ہو جاتا یا نہیں ؟ اس نے کہا:ہاں،ادا ہوجاتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:روزہ رکھ اپنی ماں کی طرف سے،نیز صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ ایک عورت نے کہا کہ میری ماں کے ذمے ایک مہینے کے روزے ہیں تو کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھ۔غیر اولاد کے روزے کا بھی ثواب میت کو پہنچتا ہے،اس واسطے کہ حدیث متفق علیہ میں آیا ہے کہ جو شخص مر جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔سورت یٰسین کا ثواب بھی میت کو پہنچتا ہے،اولاد کی طرف سے بھی اور غیر اولاد کی طرف