کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 272
سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔مشکوۃ شریف (ص:۲۲۰) میں ہے: ’’عن عکرمۃ عن ابن عباس أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم نھیٰ عن طعام المتباریین أن یؤکل‘‘[1] [نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر اور نمایش کرنے والوں کا کھانا کھانے سے منع فرمایا] ’’و عن أبي ھریرۃ قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم المتباریان لایجابان،ولا یؤکل طعامھما۔قال الإمام أحمد:یعني المتعارضین بالضیافۃ فخرا و ریاء‘‘[2] [رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر و نمود کرنے والوں کے ہاں کھانا کھانے سے منع فرمایا۔امام احمد رحمہ اللہ نے کہا:یعنی فخر و ریا کے واسطے ضیافت کرنے والے] خلاصہ ان دونوں حدیثوں کا یہ ہے کہ جو لوگ فخر و مباہات اور نام و نمود کے واسطے کھانا کھلائیں اور دعوت کریں تو ایسے لوگوں کا کھانا نہیں کھانا چاہیے،نیز اور قرض لینا ایسے کام کے لیے جو نہ سنت ہے نہ مستحب ہے نہ مباح ہے،ہرگز درست نہیں۔قرض کا ادا کرنا واجب ہوجاتا ہے اور یہ کام مباح بھی نہیں۔ایسے افعال کا مرتکب بلاشبہہ مسرف ہے،بلکہ مبتدع ہے اور مالِ یتیم کا ظلم سے کھانا حرام ہے۔ قال اللّٰه تعالیٰ:{اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا} [النساء:۱۰] یعنی بے شک جو لوگ کھاتے ہیں مال یتیموں کا ظلم سے وہ کھاتے ہیں اپنے شکموں میں آگ کو اور عنقریب داخل ہوں گے دوزخ میں۔ثواب رسانی میں موتیٰ کے طریق سلف کا اور آج تک متبعینِ سنت کا یہ ہے کہ عبادت مالی کا ثواب،مثلاً:کنواں بنا کر یا نقد یا لباس وغیرہ مساکین کو دے کر یا طعام فقرا کو دے کر لے،واللّٰه أعلم بالصواب۔ فقیر محمد حسین یقال لہ ابراہیم جس طور پر امورِ مروجہ درج سوال ہیں،بے شک ناجائز ہیں۔مال یتیم کا کھانا حرام ہے،رسومات کی پابندی بدعت ہے،ہاں ایصالِ ثواب میت کو حال سے یا کلمہ کلام سے جائز اور مستحسن ہے،خواہ بطور تعیین یا لا علی التعیین،مگر وہ تعیین داخل دین قرار دینا اور امرِ مستحب پر اصرار بطور لزوم کرنا بے شک بدعت و گمراہی ہے۔مطلق کو مقید اور مقید کو مطلق کرنا شرک فی النبوۃ ہے۔ کرامت اﷲ هو الموافق بوقت ہو جانے موت کے طعام پکوا کر کھلانا یا گھر بہ گھر تقسیم کرنا،جس طور پر کہ سوال میں مذکور ہے،بلاشبہہ حرام و ناجائز ہے۔ایسے طعام کا کھانا ممنوع ہے اور ایسا کرنے والا بلا شک مسرف ہے۔منتقی الاخبار میں ہے:
[1] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۳۷۵۴) [2] شعب الإیمان،رقم الحدیث (۶۰۶۸)