کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 27
کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری
مصنف: حافظ شاہد محمود
پبلیشر: دار ابی الطیب گوجرانوالہ
ترجمہ:
بسم اللّٰه الرحمن الرحيم
مقدمۃ التحقیق
محدث العصر علامہ محمد عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ (۱۸۶۵۔۱۹۳۵ء) کا شمار بر صغیر کے ان اکابر علما و محدثین میں ہوتا ہے،جنھوں نے ساری زندگی توحید و سنت کی اشاعت میں بسر کی اور اس سلسلے میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں۔مولانا مرحوم نے زیادہ تر اپنی توجہ کا مرکز تعلیم و تدریس اور تصنیف و تالیف کو بنایا اور اس میدان میں ایسے انمٹ نقوش چھوڑے کہ آج تک عرب و عجم کے طلبا و علما ان کے اثرات و ثمرات سے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔اﷲ تعالیٰ نے ان کی مخلصانہ خدمات کو اس قدر مبارک بنایا کہ ایک طرف تلامذہ و طلبا کی صورت میں ایک جمِ غفیر آپ سے مستفید ہو کر نورِ علم کو دور دور تک پھیلانے میں مصروفِ کار رہا اور دوسری طرف آپ کی تصنیفات کے ذریعے سے آپ کی مجتہدانہ بصیرت اور تفقہ فی الدین سے کیا عرب اور کیا عجم،ہر طرف آج تک لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔
علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے اپنے عہد کے نامور اور اکابر علما کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا،جن میں شیخ الکل فی الکل میاں صاحب نذیر حسین محدث دہلوی،استاذ الاساتذہ حافظ عبداﷲ صاحب محدث غازی پوری،علامہ حسین بن محسن یمانی،مولانا سلامت اﷲ جیراج پوری،قاضی محمد بن عبدالعزیز مچھلی شہری،مولانا محمد فاروق چریاکوٹی اور مولانا فیض اﷲ مئوی رحمہم اللہ سرِ فہرست ہیں۔
فراغت کے بعد آپ نے ملک کے بڑے بڑے مدارس میں تدریس کا فریضہ سرانجام دیا،جن میں آبائی مدرسہ دار التعلیم مبارکپور،مدرسہ عربیہ بلرام گونڈہ،مدرسہ فیض العلوم،اﷲ نگر،مدرسہ سراج العلوم کنڈو بونڈیہار،مدرسہ احمدیہ آرہ اور مدرسہ دار القرآن و الحدیث کلکتہ شامل ہیں۔اس عرصۂ تدریس میں آپ سے بے شمار طلبا نے استفادہ کیا اور ان میں سے کئی ایک نے بے پناہ شہرت حاصل کی،جن میں مولانا عبدالسلام مبارکپوری،مولانا عبیداﷲ رحمانی مبارکپوری،مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی،مولانا نذیر احمد رحمانی املوی اور مولانا تقی الدین ہلالی مراکشی وغیرہم نمایاں ہیں۔
سالہا سال مختلف علوم و فنون کا درس دینے کے ساتھ ساتھ آپ نے تصنیف و تالیف کی طرف بھی عنانِ توجہ مبذول رکھی اور آخر عمر میں تو اسی میدان میں اپنی توانائیاں صَرف کر دیں،جس کے نتیجے میں مصادرِ شریعت میں بنیادی اہمیت کی حامل کتاب سنن ترمذی کی بے نظیر شرح تحفۃ الاحوذی معرضِ وجود میں آئی۔آپ کے علمی رسوخ اور تصنیفی مہارت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ چار سال (۱۳۲۰ تا ۱۳۲۳ھ) تک ڈیانواں میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ کے ہاں سنن ابی داود کی شرح ’’عون المعبود‘‘ کی تصنیف میں معاون کے طور پر ان