کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 268
اس حدیث کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ’’باب ہل یرجع إذا رأی منکرا في الدعوۃ‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے۔یہ حدیث حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس قاعدے سے جس کو انھوں نے اوائل مقدمہ فتح الباری میں بیان کیا ہے،حسن اور قابلِ احتجاج ہے؟[1] واللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2]
کیا مقروض اور رہزن کا نمازِ جنازہ پڑھنا درست ہے؟
سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ سارق،قرض دار،ڈاکو اور رہزن وغیرہ کا جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟
جواب:عالم گیری میں ہے:
’’ویصلي علیٰ کل مسلم مات بعد الولادۃ،صغیراً کان أو کبیراً،ذکرا کان أو أنثیٰ،حرا کان أو عبدا إلا البغاۃ،وقطاع الطریق،ومن بمثل حالھم‘‘[3]
[ہر مسلمان پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے،جو زندہ پیدا ہونے کے بعد مرا ہو،چھوٹا ہو یا بڑا،مرد ہو یا عورت،آزاد ہو یا غلام،سوائے:باغیوں،ڈاکوؤں اور ان جیسے لوگوں کے]
ثابت ہوا کہ ڈاکو،رہزن اور سارق وغیرہ پر نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔باقی رہا مقروض سو اس کے واسطے جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نماز نہیں پڑھی،بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ پڑھ لو۔بلوغ المرام میں ہے:
’’عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کان یؤتیٰ بالرجل المتوفیٰ علیہ الدین فیسأل:ھل ترک لدینہ من قضاء؟ فإن حدث أنہ ترک وفاء صلی اللّٰه علیہ وسلم وإلا قال:صلوا علیٰ صاحبکم۔متفق علیہ‘‘[4] واللّٰه أعلم بالصواب
[رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بعض ایسے جنازے لائے جاتے،جن پر قرض ہوتا،آپ پوچھتے:کیا قرض ادا کرنے کے لیے کچھ مال چھوڑا ہے یا نہیں ؟ اگر مال اتنا ہوتا،جس سے قرض ادا ہو جائے تو اس پر نماز پڑھتے،ورنہ فرماتے جاؤ:اپنے ساتھی کا جنازہ پڑھو]
سید محمد نذیر حسین
[1] اس سے مراد یہ اصول ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں جس روایت کو ذکر کر کے سکوت کریں،وہ ان کے نزدیک صحیح یا حسن ہوتی ہے۔دیکھیں:فتح الباری (ص:۷)
[2] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۶۶۸)
[3] فتاویٰ عالمگیری (۱/ ۱۶۳)
[4] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۳۹۸) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۶۱۹) بلوغ المرام (۸۸۲)