کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 265
دونوں کی یا ایک کی قبر کی زیارت ہر جمعہ کو کیا کرے تو اس کی مغفرت کی جائے گی اور وہ بار لکھا جائے گا۔[1] جو لوگ عورتوں کے لیے زیارتِ قبور کو مکروہ بتاتے ہیں،ان میں بعض مکروہ بکراہت تحریمی کہتے ہیں اور بعض مکروہ بکراہت تنزیہی۔ان لوگوں کی پہلی دلیل یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے۔[2] دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سامنے آتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کہاں سے آئی ہو؟ انھوں نے کہا کہ اس میت کی تعزیت کو گئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:شاید تو جنازے کے ہمراہ گئی،یعنی قبرستان میں گئی تھی؟ انھوں نے کہا:نہیں۔[3] ان لوگوں کی یہی دو دلیلیں ہیں۔علامہ قرطبی نے ان متعارض و مختلف احادیث کی جمع و توفیق میں جو مضمون لکھا ہے،اس کا خلاصہ مجیب نے جواب میں لکھ دیا ہے اور علامہ شوکانی نے اس کو اعتماد کے قابل و لائق بتایا ہے۔بلاشبہہ جمع و توفیق کی یہ صورت بہت اچھی ہے۔واللّٰه تعالیٰ أعلم وعلمہ أتم۔ حافظ ابن حجر فتح الباری (۵/ ۶۶۲) میں لکھتے ہیں: ’’واختلف في النساء،فقیل دخلت في عموم الإذن،وھو قول الأکثر،ومحلہ ما إذ أمنت الفتنۃ،ویؤید الجواز حدیث الباب،وموضع الدلالۃ منہ أنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم لم ینکر علی المرأۃ قعودھا عند القبر،وتقریرہ حجۃ،وممن حمل الإذن علی عمومہ للرجال والنساء عائشۃ،فرویٰ الحاکم من طریق ابن أبي ملیکۃ أنہ رآھا زارت قبر أخیھا عبد الرحمن فقیل لھا:ألیس قد نھیٰ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم عن ذلک؟ قالت:نعم،کان نھیٰ ثم أمر بزیارتھا،وقیل الإذن خاص بالرجال،ولا یجوز للنساء زیارۃ القبور،وبہ جزم الشیخ أبو إسحاق في المذھب،واستدل لہ بحدیث عبد اللّٰه بن عمرو الذي تقدمت الإشارۃ إلیہ في باب اتباع النساء بجنائز،وبحدیث لعن اللّٰه زوارات القبور،أخرجہ الترمذي وصححہ من حدیث أبي ھریرۃ،ولہ شاھد من حدیث ابن عباس،ومن حدیث حسان بن ثابت،واختلف من قال بالکراھۃ في حقھن،ھل ھي کراھۃ تحریم أو تنزیہ؟ قال القرطبي:ھذا اللعن إنما ھو للمکثرات من الزیارۃ لما تقتضیہ الصیغۃ من المبالغۃ،ولعل السبب ما یفضي إلیہ ذلک من تضییع حق الزوج،والتبرج،وما ینشأ
[1] شعب الإیمان (۶/ ۲۰۱) یہ روایت بھی ضعیف ہے۔دیکھیں:تخریج الإحیاء للعراقي (۵/ ۲۴۳) السلسلۃ الضعیفۃ،رقم الحدیث (۴۹) [2] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۳۲۳۶) اس کی سند میں ’’ابو صالح باذام‘‘ ضعیف ہے۔ [3] مسند أحمد (۲/ ۱۶۸) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۳۱۲۳) سنن النسائي،رقم الحدیث (۱۸۸۰) المستدرک (۱/ ۵۲۹)