کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 264
[قرطبی نے کہا:قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر جو لعنت آئی ہے،قبرستان میں اکثر اوقات جانے والی عورتوں کے متعلق ہے،مبالغہ کے صیغے کا یہی مفاد ہے،کیوں کہ اس سے خاوند کے حقوق ضائع ہوتے ہیں۔بے پردگی ہوتی ہے۔بعض دفعہ نوحہ کرنے لگتی ہیں۔اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو پھر جائز ہے،کیوں کہ موت کی یاد کے لیے جیسے مرد محتاج ہیں،ایسے ہی عورتیں بھی محتاج ہیں۔اس سے دونوں طرح کی حدیثوں کی تطبیق ہوجاتی ہے] باقی رہا بعد مرنے کے انسان کی روح کا آنا یا نابالغ کی روح کا بڑھنا سو ان باتوں کا شریعت میں کچھ ثبوت نہیں ہے۔واللّٰه أعلم۔ حررہ:ابو محمد عبد الحق اعظم گڈھی،عفي عنہ۔سید محمد نذیر حسین هو الموافق مردوں کے واسطے زیارتِ قبور بالاتفاق سنت ہے اور عورتوں کی نسبت اختلاف ہے۔اکثر علما کے نزدیک عورتوں کے لیے بھی زیارتِ قبور جائز و رخصت ہے اور بعض علما کے نزدیک مکروہ ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں کی زیارتِ قبور کی نسبت حدیثیں مختلف آئی ہیں۔جو اہلِ علم عورتوں کے لیے بھی زیارت قبور کو جائز بتاتے ہیں،ان کی پہلی دلیل یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو ایک قبر کے پاس روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ اﷲ سے ڈر اور صبر کر۔[1] آپ نے اس کو قبر کے پاس بیٹھنے سے منع نہیں فرمایا۔دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں نے تم لوگوں کو زیارتِ قبور سے منع کیا تھا،سو تم لوگ قبروں کی زیارت کرو۔‘‘[2] وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اجازت مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل ہے اور تیسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر کی زیارت کی تو ان سے کسی نے کہا کہ کیا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو زیارتِ قبور سے منع نہیں کیا ہے؟ انھوں نے کہا ہاں منع کیا تھا (مگر) پھر ان کو زیارتِ قبور کا حکم کیا۔[3] (رواہ الحاکم) چوتھی دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اﷲ! جب میں قبروں کی زیارت کروں تو کیا کہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تو قبروں کی زیارت کرے تو کہہ:(( السلام علی أھل الدیار )) [4] الحدیث (رواہ مسلم) پانچویں دلیل یہ ہے:’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہر جمعہ کو اپنے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں۔‘‘[5] (رواہ الحاکم وہو مرسل) چھٹی دلیل یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اپنے باپ ماں
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۱۹۴) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۹۲۶) [2] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۹۷۷) [3] المستدرک (۱/ ۵۳۲) [4] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۹۷۴) [5] المستدرک (۱/ ۵۳۳) یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے۔دیکھیں:سبل السلام (۲/ ۱۸۲)