کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 260
’’وللحاکم من طریق ابن عجلان أنہ سمع سعید بن أبي سعید یقول:صلی ابن عباس علیٰ جنازۃ فجھر بالحمد،ثم قال:إنما جھرت لتعلموا أنھا سنۃ،وفیہ أیضاً:ورویٰ الحاکم أیضاً من طریق شرحبیل بن سعد عن ابن عباس أنہ صلیٰ علیٰ جنازۃ فکبر ثم قرأ الفاتحۃ رافعا صوتہ،ثم صلیٰ علی النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ثم قال:اللّٰهم عبدک۔۔۔إلی قولہ:ثم انصرف فقال:یا أیھا الناس إني لم أقرأ علیھا أي جھراً إلا لتعلموا أنھا سنۃ‘‘ [سعید بن ابی سعید کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک جنازے کی نماز پڑھائی اور الحمد بلند آواز سے پڑھی،پھر کہا:میں نے اس لیے بلند آواز سے پڑھی ہے کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ الحمد پڑھنا سنت ہے۔ایک اور روایت میں ہے کہ پھر اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا،پھر یہ دعا پڑھی:’’اللّٰهم ھذا عبدک۔۔۔الخ‘‘ پھر فارغ ہوئے تو کہا:میں نے بلند آواز سے جنازہ اس لیے پڑھایا ہے کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ جنازے کا سنت طریقہ کیا ہے] اسی طرح شافعی کی روایت میں ہے۔’’تلخیص الحبیر‘‘ (ص:۱۶۰) کے حاشیے میں ہے: ’’وفي روایۃ الشافعي:فجھر بالقراء ۃ،وقال:إنما جھرت لتعلموا أنھا سنۃ،ومثلھا للحاکم‘‘ انتھیٰ [آپ نے بلند آواز سے قراء ت کی اور کہا:میں نے اس لیے بلند آواز سے قراء ت کی ہے،تاکہ تم کو معلوم ہو جائے کہ جہر سے قراء ت کرنا سنت ہے] اسی طرح منتقیٰ ابن الجارود میں بھی ہے۔[1] عون المعبود شرح سنن ابی داود (۳/ ۱۹۱) میں ہے: ’’وأخرج ابن الجارود في المنتقیٰ من طریق زید بن طلحۃ التیمي قال:سمعت ابن عباس قرأ علیٰ جنازۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ،وجھر بالقراء ۃ وقال:إنما جھرت لأعلمکم أنھا سنۃ‘‘ انتھیٰ [ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک جنازے پر الحمد اور سورت بلند آواز سے پڑھی اور کہا کہ میں نے اس لیے بلند آواز سے قراء ت کی ہے،تاکہ تم کو معلوم ہوجائے کہ بلند آواز سے قراء ت کرنا سنت ہے] پس جب معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فاتحہ اور سورت کو فقط اس خیال سے زور سے پڑھا تھا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نمازِ جنازہ میں فاتحہ اور سورۃ کا پڑھنا سنت ہے تو اس روایت سے جہر سے پڑھنا نہیں ثابت ہوتا،بلکہ آہستہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔ہاں اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جہاں لوگوں کو یہ مسئلہ نہ معلوم ہو تو وہاں زور سے
[1] منتقیٰ ابن الجارود (۵۱۹،۵۲۰)