کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 259
قائل ہیں،انہی کا قول مدلل ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں: ’’واستدل بہ (أي بقولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم:إنہ یسمع قرع نعالھم) علیٰ جواز المشي بین القبور بالنعال،ولا دلالۃ فیہ۔قال ابن الجوزي:لیس في الحدیث سوی الحکایۃ عمن یدخل المقابر،وذلک لا یقتضي إباحۃ ولا تحریماً۔انتھیٰ،وإنما استدل بہ من استدل علیٰ الإباحۃ أخذا من کونہ صلی اللّٰه علیہ وسلم قالہ وأقرہ فلو کان مکروھا لبینہ،لکن یعکر علیہ احتمال أن یکون المراد سماعہ إیاھا بعد أن یجاوزوا المقبرۃ،ویدل علی الکراھۃ حدیث بشیر بن الخصاصیۃ أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم رأی رجلا یمشي بین القبور۔وعلیہ نعلان سبتیتان،فقال:یا صاحب السبتیتین! ألق نعلک۔أخرجہ أبو داود و النسائي،وصححہ الحاکم،وأغرب ابن حزم فقال:یحرم المشي بین القبور بالنعال السبتیۃ دون غیرھا،وھو جمود شدید،وقال الطحاوي:یحمل نھي الرجل المذکور علیٰ أنہ کان في نعلیہ قذر،فقد کان النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم یصلي في نعلیہ ما لم یر فیھا أذی‘‘[1] انتھیٰ مختصراً [اس حدیث کہ مردہ دفن کرنے کے بعد واپس جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے،سے استدلال کیا گیا ہے کہ قبرستان میں جوتوں سمیت چلنا جائز ہے۔ابن جوزی نے کہا:اس میں جائز یا ناجائز کی کوئی بحث ہی نہیں ہے،یہ تو ایک واقعے کی حکایت ہے۔مجوزین لکھتے ہیں کہ اگر یہ ناجائز ہوتا تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بیان کر دیتے،لیکن یہاں بھی احتمال ہے کہ قبرستان کے باہر جوتیوں کی آواز مردہ سنتا ہو۔بشیر بن خصاصیہ کی حدیث سے جو کراہت ثابت ہوتی ہے،ابن حزم کہتے ہیں کہ اس سے مراد صرف سبتی جوتے ہیں،دوسرے جائز ہیں،لیکن سخت جمود ہے۔اس کراہت کے متعلق طحاوی کہتے ہیں کہ ممکن ہے اس کی جوتیاں پلید ہوں،ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں پاک جوتیوں سے نماز پڑھ لیا کرتے تھے،قبرستان اس سے زیادہ پاک جگہ نہیں ہے] بلاشبہہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت مذکورہ بالا سے ثابت ہے کہ نمازِ جنازہ میں سورت فاتحہ اور کسی اور سورت کا پڑھنا سنت و حق ہے اور بلاشبہہ یہ روایت بھی قابل عمل ہے،لیکن رہی یہ بات کہ سورت فاتحہ اور سورت کو جہر سے پڑھنا چاہیے یا آہستہ؟ سو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنی ایک روایت میں تصریح کر دی ہے کہ فاتحہ اور سورۃ کا نماز جنازہ میں پڑھنا سنت ہے۔فتح الباری (ص:۶۹۰) میں ہے:
[1] فتح الباري (۳/ ۲۰۶)