کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 258
سورۃ،وجھر،فلما فرغ قال:سنۃ وحق‘‘[1] یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے ایک جنازے پر نماز پڑھی تو سورت فاتحہ پڑھی اور کہا کہ سورت فاتحہ میں نے اس واسطے پڑھی ہے،تاکہ تم لوگ جان لو کہ یہ سنت ہے۔روایت کیا اس حدیث کو بخاری اور ابوداود اور ترمذی نے اور صحیح کہا ہے،نیز اس کو روایت کیا نسائی نے اور اس میں یوں کہا ہے کہ پھر پڑھی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورت فاتحہ اور ایک اور سورت اور زور سے پڑھی،پھر جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے۔ وہ حدیث جس میں سورت ملانے کا ذکر ہے،وہ نسائی شریف کی روایت ہے،جیسا کہ اوپر منتقیٰ کی عبارت سے معلوم ہوا اور اس کے راوی اس واسطے ٹھیک ہیں کہ اس کی سند کو علامہ قاضی شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار شرح منتقیٰ میں صحیح کہا ہے،چنانچہ نیل الاوطار میں ہے: ’’قولہ:وسورۃ۔فیہ مشروعیۃ قراء ۃ سورۃ مع الفاتحۃ في صلاۃ الجنازۃ،ولا محیص عن المصیر إلیٰ ذلک،لأنھا زیادۃ خارجۃ من مخرج صحیح‘‘[2] انتھیٰ مختصراً۔ [ایک سورت کے الفاظ سے معلوم ہوا کہ نمازِ جنازہ میں سورت فاتحہ کے ساتھ اور سورت کا پڑھنا بھی درست ہے اور اس کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے،کیوں کہ یہ زیادت صحیح سند سے ثابت ہے] جب ثابت ہوا کہ نمازِ جنارہ میں سورت فاتحہ اور سورت کا جہر سے پڑھنا،جس حدیث میں مذکور ہے،اس کے راوی ٹھیک ہیں اور وہ حدیث صحیح ہے تو اس پر عمل کرنا جائز ہوا۔واﷲ تعالیٰ أعلم۔ حررہ:محمد عبدالحق ملتانی سید محمد نذیر حسین هو الموافق قبر ستان میں جوتی پہن کر چلنے کی ممانعت بشیر بن خصاصیہ کی حدیث مذکور سے صاف ثابت ہوتی ہے۔بعض اہلِ علم اس حدیث کے مطابق ممانعت کے قائل ہیں اور بعض اہلِ علم قبرستان میں جوتی پہن کر چلنے کو جائز بتاتے ہیں،مگر جس حدیث سے یہ لوگ استدلال کرتے ہیں،اس سے ان کا مطلوب ثابت نہیں ہوتا۔علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ سبتی جوتی (مدبوغ چمڑے کی جوتی جس میں بال نہ ہوں)پہن کر قبرستان میں چلنا حرام و ناجائز ہے اور غیر سبتی جوتی پہن کر چلنا جائز ہے،لیکن ابن حزم کا بھی یہ قول ٹھیک نہیں،کیونکہ سبتی اور غیر سبتی جوتی میں کوئی فارق نہیں ہے۔امام طحاوی کہتے ہیں کہ حضرت نے جو اس شخص کو جوتی پہن کر چلنے سے منع فرمایا،سو یہ ممانعت محمول ہے اس پر کہ اس کی جوتی میں ناپاکی لگی تھی،مگر یہ بات بھی ٹھیک نہیں،کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں،پس جو لوگ ممانعت کے
[1] نیل الأوطار (۴/ ۱۰۱) نیز دیکھیں:صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۲۷۰) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۳۱۹۸) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۰۲۷) سنن النسائي،رقم الحدیث (۱۹۸۷) [2] نیل الأوطار (۴/ ۱۰۲)