کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 257
الرجل لیلاً حتی یصلیٰ علیہ،وأجیب عنہ أن الزجر منہ صلی اللّٰه علیہ وسلم إنما کان لترک الصلاۃ لا للدفن باللیل أو لأجل أنھم کانوا یدفنون باللیل لرداء ۃ الکفن فالزجر إنما ھو بما کان الدفن باللیل مظنۃ إساء ۃ الکفن کما تقدم،فإذا لم یقع تقصیر في الصلاۃ علیٰ المیت وتکفینہ فلا بأس بالدفن لیلا،واللّٰه أعلم‘‘ [اس باب میں مندرجہ احادیث دلالت کرتی ہیں کہ رات کو مردے دفن کرنا جائز ہے،جمہور کا یہی مذہب ہے۔حسن بصری اسے مکروہ جانتے ہیں اور انھوں نے ابو قتادہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو دفن کرنے سے منع فرمایا ہے،یہاں تک کہ اس پر نماز پڑھی جائے اور اس کا جواب یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترکِ نماز کی وجہ سے ممانعت کی ہے نہ کہ رات کو دفن کرنے سے اور اس لیے بھی کہ رات کو وہ ردی سا کفن دے دیا کرتے تھے اور جب نمازِ جنازہ اور کفن میں تقصیر نہ ہو تو پھر رات کو دفن کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے] کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] محمد شمس الحق قبرستان میں جوتی پہن کر چلنا اور نمازِ جنازہ میں قراء ت کا مسئلہ: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ قبرستان میں جوتی پہن کر چلنا درست ہے یا نہیں اور جنازے کی نماز میں سورۃ الفاتحہ اور سورۃ کا زور سے پڑھنا،جس حدیث میں مذکور ہے،اس کے راوی ٹھیک ہیں یا نہیں اور اس پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب:قبرستان میں جوتی پہن کر چلنا نہیں درست ہے۔منتقیٰ میں ہے: ’’عن بشیر بن الخصاصیۃ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم رأیٰ رجلا یمشي في نعلین بین القبور،فقال:یا صاحب السبتیتین ألقھما۔رواہ الخمسۃ إلا الترمذي‘‘[2] یعنی بشیر بن خصاصیۃ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جوتی پہنے ہوئے قبرستان میں جا رہا تھا تو آپ نے فرمایا:اے جوتی والے! جوتیوں کو اتار دے۔ جنازے کی نماز میں سورت فاتحہ اور مزید ایک سورت کا پڑھنا،جس حدیث میں مذکور ہے،اس کے راوی ٹھیک ہیں۔سورت فاتحہ کی حدیث کے راوی تو اس واسطے ٹھیک ہیں کہ وہ صحیح بخاری کی حدیث ہے،چنانچہ منتقیٰ میں ہے: ’’عن ابن عباس أنہ صلیٰ علیٰ جنازۃ فقرأ بفاتحۃ الکتاب قال:لتعلموا أنہ من السنۃ۔رواہ البخاري،وأبو داود،والترمذي وصححہ،والنسائي،وقال فیہ:فقرأ بفاتحۃ الکتاب و
[1] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۶۴۶) [2] نیل الأوطار (۴/ ۱۳۶) نیز دیکھیں:مسند أحمد (۵/ ۸۳)