کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 256
[نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا،آپ کے صحابہ میں سے ایک آدمی کا ذکر کیا گیا کہ وہ فوت ہوگیا ہے،اسے معمولی قسم کا کفن دیا گیا ہے اور اسے رات ہی میں دفن کیا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈانٹ کر منع فرمایا کہ کسی آدمی کو رات کو دفن نہ کیا جائے،تاکہ اس پر جنازے کی نماز کثرت سے پڑھی جائے۔ہاں اگر مجبوری ہو تو علاحدہ بات ہے،نیز فرمایا:جب کوئی تم میں سے اپنے بھائی کو کفن دے تو اچھا کفن دے] لیکن فی الحقیقت اس سے ممانعت نہیں ثابت ہوتی،کیونکہ حدیث کا لفظ یوں ہے:’’فزجر النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أن یقبر لیلاً حتی یصلیٰ علیہ‘‘ اس جملے سے صاف ثابت ہے کہ رات کے وقت دفن کرنا مطلقاً ممنوع نہیں ہے،بلکہ بغیر نماز کے رات کو دفن کرنا ممنوع ہے،لہٰذا زید کا مطلقاً یہ کہنا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی رات کے وقت دفن کرنے کو منع فرمایا،صحیح نہیں ہے،ہاں البتہ بغیر نماز پڑھے رات کو دفن کرنا ممنوع ہے،جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے۔خلاصہ یہ کہ رات کو مردہ دفن کرنا جائز ہے۔واﷲ أعلم بالصواب۔ سید محمد نذیر حسین هو الموافق اگر رات کو تجہیز و تکفین اور نمازِ جنازہ ہوسکے تو رات کو دفن کرنا بلاشبہہ جائز و درست ہے۔کما یدل علیہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما المذکور۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رات ہی کو دفن کیے گئے تھے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی رات ہی کو دفن کی گئی تھیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں: ’’استدل المصنف (أي الإمام البخاري) للجواز (أي لجواز الدفن باللیل) بما ذکرہ من حدیث ابن عباس،ولم ینکر النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم علیھم دفنھم إیاہ باللیل،بل أنکر علیھم عدم إعلامھم بأمرہ،وأید ذلک بما صنع الصحابۃ بأبي بکر،وکان ذلک کالإجماع منھم علیٰ الجواز،وصح أن علیا دفن فاطمۃ لیلا‘‘[1] انتھیٰ ملخصاً۔ [امام بخاری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے رات کو دفن کرنے کے متعلق استدلال کیا اور کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو دفن کرنے سے منع نہیں فرمایا،بلکہ ان کو اطلاع نہ دینے کی وجہ سے زجر کی۔نیز اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ صحابہ نے حضرت ابوبکر کو رات کے وقت دفن کیا تو یہ ایک طرح کا اجماع ہوا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رات کے وقت دفن کیا] قاضی شوکانی ’’نیل الاوطار‘‘ (۳/ ۳۳۱) میں لکھتے ہیں: ’’والأحادیث المذکورۃ في الباب تدل علیٰ جواز الدفن باللیل،وبہ قال الجمھور،وکرہ الحسن البصري،واستدل بحدیث أبي قتادۃ،وفیہ أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم زجر أن یقبر
[1] فتح الباري (۳/ ۲۰۸)