کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 242
عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں:’’قال:السنۃ أن یخطب في العیدین خطبتین فیفصل بینھما بجلوس‘‘ یعنی سنت یہ ہے کہ امام عیدین میں دو خطبے پڑھے اور دونوں خطبوں کے درمیان فصل کرے۔ لیکن یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔حافظ زیلعی تخریجِ ہدایہ (ص:۳۲۴) میں لکھتے ہیں: ’’قال النووي في الخلاصۃ:وروي عن ابن مسعود قال:’’السنۃ أن یخطب في العیدین خطبتین فیفصل بجلوس‘‘ ضعیف غیر متصل،ولم یثبت في تکریر الخطبۃ شییٔ،و لکن المعتمد فیہ أیضا القیاس علی الجمعۃ‘‘[1] انتھی کلامہ [نووی نے خلاصہ میں کہا ہے:ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہوئے جو یہ فرمایا ہے:’’سنت یہ ہے کہ امام عیدین کے دو خطبے دے اور ان میں بیٹھ کر فعل کری ‘‘ یہ ضعیف اور غیر متصل ہے،خطبے کے تکرار میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے،لیکن اس میں بھی قابلِ اعتماد چیز جمعے پر قیاس ہے] علامہ امیر صنعانی سبل السلام میں تحت حدیث ابی مسعود خدری ’’ویقوم مقابل الناس،والناس علی صفوفھم فیعظھم ویأمرھم‘‘ (متفق علیہ) لکھتے ہیں: ’’وفیہ دلیل علی مشروعیۃ خطبۃ العید،وأنھا کخطب الجمع أمر و وعظ،ولیس فیہ أنھا خطبتان کالجمعۃ،وأنہ یقعد بینھما،ولعلہ لم یثبت ذلک من فعلہ صلی اللّٰه علیہ وسلم،وإنما صنعہ الناس قیاسا علی الجمعۃ‘‘[2] انتھیٰ [اس میں عید کے خطبے کی مشروعیت کی دلیل ہے اور بلاشبہہ وہ جمعوں کے خطبوں کی طرح امر (و نہی) اور وعظ و نصیحت پرمشتمل ہے،اس میں یہ نہیں ہے کہ وہ جمعے کی طرح دو خطبے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان بیٹھتے تھے۔شاید یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے جو انھوں نے جمعے پر قیاس کر کے کیا ہے] الحاصل خطبۂ جمعہ کے مثل عیدین میں دو خطبہ ہونا کسی حدیث صحیح صریح سے ثابت نہیں ہے۔[3] ھذا ما عندي،واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ أملاہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔
[1] نصب الرایۃ (۲/ ۲۲۱) [2] سبل السلام (۲/ ۶۸) [3] ایک حدیث یہ بھی ہے:’’عن سعد بن أبي وقاص أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم صلیٰ العید بغیر أذان ولا إقامۃ،وکان یخطب خطبتین،یفصل بینھما بجلسۃ‘‘ رواہ البزار،ورجالہ في إسنادہ من لم أعرفہ (مجمع الزوائد) [عبدالسمیع مبارک پوری]