کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 236
صلاۃ العیدین،ویقال لہ:الجبانۃ،ومطلق الخروج من بیتہ إلی الصلاۃ وإن کان واجبا بناء علیٰ أن ما یتم بہ الواجب واجب،لکن الخروج إلی الجبانۃ سنۃ مؤکدۃ،وإن وسعھم المسجد الجامع۔۔۔والأصل فیہ أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم کان یخرج إلی المصلیٰ ولم یصل صلاۃ العیدین في مسجدہ مع شرفہ إلا مرۃ بعذر المطر،کما بسطہ ابن القیم في زاد المعاد،والقسطلاني في المواھب اللدنیۃ وغیرھما،والأحادیث في ھذ الباب مخرجۃ في کتب السنن وغیرھا‘‘[1] انتھیٰ [عیدین کی نماز کے لیے جبانہ مقام کی طرف نکلنا سنت سے ہے۔یہ صحرا میں ایک مقام ہے،نمازِ عید کے لیے گھر سے نکل کر باہر جانا واجب اور جبانہ میں جانا سنت ہے،اگرچہ مسجد وسیع ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مسجد میں عیدین کی نماز سوائے ایک دفعہ کے (وہ بھی بارش کے عذر سے) نہیں پڑھی،حالانکہ مسجد نبوی کی کتنی فضیلت ہے] مختصراً خلاصہ یہ کہ عیدین کی نماز صحرا میں پڑھنا یہی فعل سنت کے مطابق ہے،لہٰذا اس تقدیر پر لوگوں کا لعن طعن کرنا اور تفریقِ جماعت کہنا ہر گز صحیح نہیں ہے،کیونکہ یہ بات بہت ظاہر ہے کہ لعن طعن کا محل اور تفریقِ جماعت کا باعث انسان اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب یہ فعل شر و فساد کی نیت سے کرے،لیکن اگر ادائے سنت کے ارادے سے کرے تو ہر گز نہیں ہوسکتا،لہٰذا یہ اعتراض فریقِ ثانی پر بھی موجود ہے،کیونکہ جب جماعت کا قائم رکھنا ضروری ہے تو وہ لوگ بھی کیوں نہیں صحرا میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے،تاکہ جماعت بھی قائم رہے اور سنت پر بھی عمل ہو؟ علی ہذا القیاس بعض عالموں نے جو یہ فرمایا ہے کہ جماعت پر اﷲ کا ہاتھ ہے اور اس کو مقدم رکھنا چاہیے اور اشرفی کو چھوڑ کر پیسے کے واسطے نہیں جانا چاہیے،سو یہ قول بھی قابلِ تسلیم نہیں،کیونکہ ان سب باتوں کے لیے شرط یہ ہے کہ حضرت کی سنتوں پر عمل رہے اور اگر یوں ہی جماعت مقدم کی جائے تو ایک روز ایسا آئے گا کہ تمام سنتیں اٹھ جائیں گی اور اہلِ اسلام خالی ہاتھ رہ جائیں گے،لہٰذا جو حضرات مخالف ہیں،ان کو چاہیے کہ وہ اس سنت پر عمل کریں اور تعصب کو راہ نہ دیں،کیونکہ یہ دین کا معاملہ ہے۔واﷲ تعالیٰ أعلم،حررہ:عبدالحق۔سید محمد نذیر حسین هو الموافق فی الواقع عیدین کی نماز صحرا ہی میں پڑھنا سنت ہے اور بلا عذر مسجد میں پڑھنا خلافِ سنت ہے۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کی نماز ہمیشہ صحرا ہی میں ادا فرمائی ہے،حالانکہ مسجد نبوی میں ایک نماز اور مقاموں کی ہزار نماز سے افضل ہے۔باوجود اس فضیلت کے کبھی آپ نے بلا عذر مسجد نبوی میں عیدین کی نماز نہیں پڑھی اور نہ آپ کے بعد خلفائے راشدین نے پڑھی۔[2]
[1] عمدۃ الرعایۃ (۳/ ۷۰) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۱۳۳) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۳۹۴)