کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 235
گا اور یہ بھی فرمایا کہ اﷲ کا ہاتھ اوپر جماعت کے ہے،جماعت کو مقدم رکھو اور پیسے کے واسطے جاتے ہو،اشرفی چلی جاتی ہے۔بعض علما نے یہ فرمایا کہ جس مسجد میں پنج گانہ نماز ادا کی جاتی ہے،اس مسجد میں نماز عیدین ادا کرنا مکروہ معلوم ہوتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میرے خیال میں توڑنا جماعت کا نہیں معلوم ہوتا ہے۔پس ہم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان دونوں میں ہمارے لیے کون افضل ہے جس کی ہم پیروی کریں ؟ جواب:آپ لوگوں کے لیے افضل یہ ہے کہ صحرا میں نماز پڑھیں،کیونکہ سنت کے مطابق یہی فعل ہے اور محلے کی مسجد میں بلا عذر پڑھنا خلافِ سنت ہے،اس پر اہلِ حدیث اور حنفیہ سب کا اتفاق ہے،چنانچہ نمونے کے طور پر دونوں فریق کی دو دو ایک ایک سندیں لکھی جاتی ہیں۔ منتقی میں ہے: ’’عن علي رضی اللّٰه عنہ قال:من السنۃ أن تخرج إلی العید ماشیا وأن تأکل شیئاً قبل أن تخرج۔رواہ الترمذي وقال:حدیث حسن‘‘[1] [حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ عید گاہ کی طرف پیدل جایا جائے اور عید کی نماز پڑھنے سے پہلے کچھ کھا لیا جائے] ہدایہ میں ہے: ’’ویتوجہ إلی المصلیٰ،ولا یکبر عند أبي حنیفۃ في طریق المصلیٰ،وعندھما:یکبر‘‘[2] [عیدگاہ کی طرف جاتے ہوئے راستے میں امام ابو حنیفہ کے نزدیک تکبیریں نہ کہے اور صاحبین کے نزدیک تکبیریں کہے] نیز شرح وقایہ میں ہے: ’’ویخرج إلی المصلیٰ غیر مکبر جھرا في طریقہ،نفیٰ التکبیر بالجھر حتی لو کبر من غیر جھر لکان حسناً‘‘[3] [عیدگاہ کی طرف جاتے ہوئے آہستہ آواز سے تکبریں کہے۔امام ابو حنیفہ سے جو نفی ذکر کی گئی ہے،اس کا یہ مطلب ہے کہ اونچی آواز سے نہ کہے] خاص کر حنفیہ کے نزدیک نمازِ عیدین صحرا میں پڑھنا سنت مؤکدہ ہے،چنانچہ عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح وقایہ میں ہے: ’’قولہ:ویخرج إلی المصلیٰ:بصیغۃ المجھول،ھو موضع في الصحراء یصلي فیہ
[1] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۵۳۰) [2] الھدایۃ (ص:۸۴) [3] شرح الوقایۃ (۲/ ۱۸۴)