کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 234
یہی مضمون اصولِ فقہ کی تمام کتابوں میں لکھا ہوا ہے،مگر باوجود اس کے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قولِ مذکور سے،جو خبرِ واحد کے درجے میں بھی نہیں ہے،آیتِ مذکورہ کی تخصیص کرتے ہیں اور اس کے حکمِ عام کو اس قول سے منسوخ کرتے اور کہتے ہیں کہ اقامتِ جمعہ فقط مصر میں درست و جائز ہے اور غیر مصر میں ناجائز و نادرست۔ دیکھو! علمائے حنفیہ کا یہ صنیع کس قدر قابل تعجب ہے؟! رابعاً:اس وجہ سے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول سے غیر مصر میں جمعہ کا ناجائز ہونا نکلتا ہے تو حضرت عمر،عثمان،ابوہریرہ،ابن عمر وغیرہم رضی اللہ عنہم کے افعال و اقوال سے غیر مصر میں جمعہ کا جائز و درست ہونا ثابت ہوتا ہے،پس چونکہ ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال آیتِ مذکورہ و احادیثِ مرفوعہ کے موافق ہیں،لہٰذا انھیں صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال کا لینا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کو ترک کرنا لازم ہے،یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول کو اور ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال کو ترک کرنا اور قول اﷲ اور قولِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنا لازم ہے: قال اللّٰه تعالیٰ:{ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا} [النساء:۵۹] [اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:اگر کسی چیز میں تمھارا جھگڑا ہوجائے تو اس کو اﷲ اور رسول کے پاس لے آؤ،اگر تم اﷲ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو،یہ بہت بہتر ہے اور اسی کا انجام اچھا ہے] جب ہم نے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یعنی قرآن و حدیث کی طرف رجوع کیا تو ثابت ہوا کہ اقامتِ جمعہ مصر و غیر مصر ہر جگہ جائز و درست ہے،پس اسی کو لینا اور اسی پر عمل کرنا فرض ہے۔واﷲ تعالیٰ أعلم وعلمہ أتم۔کتبہ:محمد عبد الرحمن،عفا اﷲ عنہ۔[1] سید محمد نذیر حسین عیدین کے مسائل و احکام نمازِ عید صحرا میں ادا کرنا سنت ہے: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ عرصہ بیس برس سے اوپر ہوا کہ اہلِ حدیث اور حنفیہ میں نزاع ہوئی اور دو فرقے ہوگئے۔ایک فرقہ اہلِ حدیث نماز جمعہ اور عیدین کی ایک محلے کی مسجد میں ادا کرتے رہے۔اس عرصے میں ہم لوگوں کو معلوم ہوا کہ عیدین کی نماز صحرا میں ادا کرنا افضل ہے۔پس اس محلے کی مسجد کو چھوڑ کر عیدین کی نماز ادا کرنے کے لیے چند آدمی صحرا میں چلے گئے۔پس اس کے بعد چند آدمیوں نے طعن لعن کی اور توڑنا جماعت کا چاہا اور بعض علما نے فرمایا کہ جو شخص بخیال سنت کے صحرا میں جائے گا،ما شاء اﷲ ثواب پائے
[1] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۵۹۵)