کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 233
[اس میں اجتہاد کو دخل ہے،لہٰذا اس سے احتجاج جائز نہیں ہے] ثانیاً:اس وجہ سے کہ آیتِ قرآنیہ و احادیثِ مرفوعہ مطلق و عام ہیں،جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مصر اور غیر مصر ہر مقام میں اقامتِ جمعہ جائز و درست ہے،پس یہ نصوصِ مطلقہ و عامہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کے نافی ہیں اور صحابی کا ایسا قول جس کی احادیثِ مرفوعہ و آیاتِ قرآنیہ سے نفی ہوتی ہو،وہ قول بالاتفاق حجت نہیں۔فقہائے حنفیہ کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ ثالثاً:اس وجہ سے کہ آیت:{ ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ} [الجمعۃ:۹] [اے ایمان والو! جب جمعہ کی نماز کے لیے اذان کہی جائے تو اﷲ کے ذکر کی طرف دوڑو] ہر مکلف کو عام ہے اور ہر مکان مصر و غیر مصر کو شامل،پس اس آیتِ قرآنیہ کے عموم سے مصر و غیر مصر،ہر جگہ و ہر مقام میں اقامتِ جمعہ کا جائز و درست ہونا صاف و روشن ہے۔ علامہ ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکاۃ میں لکھتے ہیں: ’’دلیل الافتراض من کلام اللّٰه تعالیٰ یفیدہ علیٰ العموم في الأمکنۃ‘‘[1] انتھیٰ [اﷲ تعالیٰ کے قول سے جمعہ فرض ہونے کی دلیل تمام جگہوں میں اس کے عموم پر دلالت کرتی ہے] پس اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کی وجہ سے یہ کہا جائے کہ بستیوں اور دیہاتوں میں اقامتِ جمعہ جائز نہیں،بلکہ فقط مصر ہی میں جائز ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے آیتِ قرآنیہ کی تخصیص لازم آتی ہے،حالانکہ صحابی کے قول سے قرآن کی تخصیص بالاتفاق جائز نہیں ہے۔نہایت تعجب ہے علمائے حنفیہ سے کہ ان کی تمام اصول کی کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اخبارِ آحاد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں،چنانچہ تلویح میں ہے: ’’لا یجوز تخصیص الکتاب بخبر الواحد،لأن خبر الواحد دون الکتاب،ولأنہ ظني،والکتاب قطعي،فلا یجوز تخصیصہ،لأن التخصیص تغییر،والتغییر لا یکون إلا بما یساویہ أو یکون فوقہ‘‘[2] انتھیٰ یعنی خبرِ واحد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں،کیونکہ خبر واحد کا درجہ قرآن کے درجے سے ادنیٰ ہے،اس لیے کہ خبر واحد ظنی ہے اور قرآن قطعی ہے،پس خبر واحد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں،اس وجہ سے کہ تخصیص کے معنی ہیں متغیر کر دینا اور بدل دینا اور کسی شے کو متغیر کرنا اور اس کو بدل دینا اسی چیز سے ہوگا،جو اس شے کے مساوی ہو یا اس سے بڑھ کر ہو۔
[1] مرقاۃ المفاتیح (۳/ ۱۰۵۰) [2] شرح التلویح (۲/ ۳۹)