کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 229
اقامتِ جمعہ صحیح و درست ہے،مصر ہو خواہ مصر نہ ہو اور حنفیہ لکھتے ہیں کہ جب حدیث مرفوع صحابی کے کسی قول کی نفی کرے،یعنی صحابی کا قول حدیث مرفوع کے خلاف ہو تو وہ قول حجت نہیں ہے۔فتح القدیر میں ہے: ’’قول الصحابي حجۃ فیجب تقلیدہ عندنا إذا لم ینفہ شییٔ آخر من السنۃ‘‘[1] انتھیٰ [ہمارے نزدیک صحابی کا قول حجت ہے اور اس کی تقلید ضروری ہے،جب کہ اس سے کسی حدیث کی نفی نہ ہوتی ہو] بنا بریں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قولِ مذکور حجت نہیں ہوسکتا،لہٰذا اس قول سے جمعہ کے لیے مصر کا شرط ٹھہرانا خود حنفیہ کے اصول سے بھی باطل ہے۔ جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا ہرگز جائز نہیں ہے،کیونکہ کسی دلیل شرعی سے جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا ثابت نہیں اور جو لوگ جمعہ کے بعد ظہر پڑھنے کے قائل ہیں،وہ یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ دیہاتوں میں جمعہ کے فرض ہونے میں شک ہے،اس وجہ سے احتیاطاً ظہر پڑھ لینا چاہیے،سو یہ وجہ بالکل غلط اور باطل ہے،کیونکہ قرآن و احادیث سے دیہات اور غیر دیہات میں جمعہ کا فرض ہونا نہایت صاف اور صراحت کے ساتھ ثابت ہے اور اس میں کسی قسم کا ذرا بھی شک و شبہہ نہیں،پس جمعہ کے بعد ظہر کو جائز بتانا بنائے فاسد علی الفاسد ہے۔واللّٰه أعلم بالصواب حررہ:أبو محمد عبد الحق أعظم گڈھی،عفي عنہ (۹/ ذي قعدہ ۱۳۱۹ھ) سید محمد نذیر حسین هو الموافق فی الواقع قرآن و حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام میں اقامتِ جمعہ درست ہے۔اس بارے میں چھوٹے اور بڑے گاؤں کی تفریق نہیں آئی ہے کہ بڑے گاؤں میں تو جمعہ درست ہو اور چھوٹے گاؤں میں نادرست،بلکہ ہر جگہ اور ہر گاؤں میں خواہ کتنا ہی چھوٹا ہو،اقامتِ جمعہ درست ہے۔علماے حنفیہ جمعہ کے درست ہونے کے لیے جو مصر کا ہونا شرط لکھتے ہیں،سو ان کی یہ بات بالکل بے دلیل ہے اور بے اصل ہے اور ساتھ اس کے مصر کی تعریف میں انھوں نے بڑا ہی اختلاف کیا ہے۔کوئی مصر کی تعریف کچھ لکھتا ہے اور کوئی کچھ اور ان کی تعریفات متخالفہ و متناقضہ میں سے کوئی تعریف بھی نہ لغت سے ثابت ہے اور نہ قرآن و حدیث سے،بلکہ فقہائے حنفیہ نے محض اپنی اپنی رائے سے لکھی ہیں۔ جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا ہر گز جائز نہیں،نہ چھوٹے گاؤں اور نہ بڑے گاؤں میں اور نہ کسی اور مقام میں۔رسالہ ’’التحقیقات العلیٰ‘‘ میں مرقوم ہے کہ نمازِ جمعہ فرضِ عین ہے،فرضیتِ ظہر اس سے ساقط ہوجاتی ہے،اس لیے کہ صلاۃِ جمعہ قائم مقام صلاۃِ ظہر ہے،پس جس شخص نے ظہر احتیاطی ادا کی،اس نے ایک صلاۃ مفروضہ کو دوبار ایک دن،ایک وقت میں بلا اذن شارع ادا کیا اور یہ ممنوع ہے:
[1] فتح القدیر (۲/ ۶۸)