کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 228
یعنی اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اﷲ کے ذکر کی طرف دوڑو۔ ظاہر ہے کہ اس آیت میں جناب باری تعالیٰ نے عام طور پر ہر مسلمان کو فرمایا کہ جمعہ کے دن جمعہ کی اذان ہو تو لوگ فوراً حاضر ہوں،لہٰذا اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ جمعہ کے لیے کسی قسم کی بستی ہونے کی ضرورت نہیں ہے،ہاں البتہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جمعہ کے لیے اس قدر آدمی ہونے چاہییں کہ جماعت ہوجائے۔چنانچہ منتقیٰ میں ہے: ’’عن طارق بن شھاب عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:(( الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم في جماعۃ إلا أربعۃ:عبد مملوک أو امرأۃ أو صبي أو مریض )) [1] رواہ أبو داود۔انتھیٰ مختصراً یعنی ہر مسلمان پر فرض ہے کہ جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے،مگر چار شخص:غلام مملوک،عورت،لڑکا اور مریض،یعنی ان چار شخصوں پر نماز جمعہ فرض نہیں،پس جمعہ کے لیے اتنے آدمی ہونے چاہییں کہ جن سے جماعت ہوجائے اور جماعت کے لیے کم از کم دو شخص ہونا چاہیے۔نیل الاوطار میں ہے: ’’وأما الاثنان فبانضمام أحدھما إلی الآخر یحصل الاجتماع،وقد أطلق الشارع اسم الجماعۃ علیھما،فقال:(( الاثنان فما فوقھما جماعۃ )) کما تقدم في أبواب الجماعۃ‘‘[2] [جب ایک دوسرے سے مل جائیں تو اجتماع حاصل ہوجاتا ہے اور شارع نے اس پر جماعت کا اطلاق کیا ہے۔فرمایا:دو اور اس سے اوپر جماعت ہے] خلاصہ یہ کہ دو شخصوں سے جماعت ہوجاتی ہے۔اب آیت اور حدیث دونوں کے ملانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جمعہ کے لیے کسی خاص قسم کی بستی ہونے کی ضرورت نہیں ہے،بلکہ بقدر جماعت آدمی ہونے چاہئیں،جس کا کم سے کم درجہ دو عدد ہے،لہٰذا ان دلیلوں کے بموجب اگر کوئی ایسی بستی ہو کہ اس میں صرف دو ہی مسلمان ہوں تو ان پر بھی جمعہ فرض ہے۔ ہاں البتہ حنفیہ کے نزدیک جمعہ کے لیے مصر،یعنی شہر کا،ہونا شرط ہے اور اس کے ثبوت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے:’’لا جمعۃ ولا تشریق ولا فطر ولا أضحیٰ إلا في مصر جامع‘‘[3] استدلال کرتے ہیں،لیکن واضح ہو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے جمعہ کے لیے مصر کا شرط ہونا ہرگز ثابت نہیں ہوتا اور خود حنفیہ کے اصول و قواعد کی رو سے بھی ثابت نہیں ہوتا،اس واسطے کہ آیتِ قرآن اور احادیثِ صحیحہ مرفوعہ اس قول کی صاف نفی کرتی ہیں،کیونکہ آیت و احادیثِ مرفوعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ صحتِ جمعہ کے لیے مصر کا ہونا شرط نہیں ہے،بلکہ ہر جگہ اور ہر مقام میں
[1] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۱۰۶۷) [2] نیل الأوطار (۳/ ۲۸۳) [3] مصنف ابن أبي شیبۃ (۲/ ۱۰۱)