کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 226
نمازِ جمعہ پڑھتے تھے،مگر اب کچھ عرصہ ہوا کہ ہم نے اپنے گاؤں میں،جو پہلے گاؤں سے میل سے کچھ کم فاصلے پر ہے،نمازِ جمعہ شروع کی ہوئی ہے۔ہمارا گاؤں پہلے گاؤں کی نسبت کچھ چھوٹا بھی ہے،مگر ہم گاؤں میں جمعہ جائز سمجھتے تھے،اس لیے شروع کر دیا اور زیادہ وجہ یہ ہے کہ دوسرے گاؤں میں صرف دو تین آدمی بالاستقلال جاتے تھے اور باقی سب تارکِ جمعہ ہوتے تھے۔اب بفضلہ تعالیٰ سب لوگ جمعہ میں حاضر ہوجاتے ہیں۔پہلے مولوی صاحب نے فتویٰ دیا ہے کہ ہمارا جمعہ باطل ہے کہ ہر ایک گاؤں میں علاحدہ جمعہ ثابت نہیں۔اس لیے درخواست ہے کہ ہم کو بتایا جائے کہ کیا واقعی ہمارا جمعہ باطل ہے یا صحیح؟ ہم اہلحدیث ہیں اور پریشان ہیں۔بینوا توجروا! مرسلہ:مولوی نیک محمد صاحب،مدرس مدرسہ غزنویہ امرتسر کڑہ،مہمان سنگھ کوچہ نگران مسجد قدس جواب:صورتِ مسئولہ میں جبکہ آپ لوگوں کا چھوٹا گاؤں دوسرے بڑے گاؤں سے بالکل قریب ہے،ایک میل سے بھی کم فاصلے پر ہے تو اس صورت میں آپ لوگوں کو اسی بڑے گاؤں میں جمعہ پڑھنا چاہیے،جہاں آپ لوگ پہلے پڑھا کرتے تھے۔عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ رضی اللہ عنہم دو دو تین تین میل کے فاصلے سے مسجدِ نبوی میں جمعہ پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینے اور آس پاس میں نو مسجدیں تھیں اور جمعہ کے دن ان تمام مسجدوں کے مصلی مسجد نبوی میں آکر نمازِ جمعہ پڑھا کرتے تھے۔گاؤں میں بلاشبہہ نمازِ جمعہ جائز و درست ہے،لیکن ہر گاؤں میں،جو باہم ایک دوسرے سے بالکل قریب ہوں،نمازِ جمعہ نہیں پڑھنا چاہیے،بلکہ ان میں سے کسی ایک گاؤں میں جمعہ قائم کرنا چاہیے اور قریب گاؤں کے لوگوں کو اسی ایک گاؤں میں جاکر جمعہ پڑھنا چاہیے۔ تلخیص الحبیر (صفحہ:۱۳۳) میں ہے: ’’و رویٰ أبو داود في المراسیل عن بکیر بن الأشج أنہ کان بالمدینۃ تسعۃ مساجد مع مسجدہ صلی اللّٰه علیہ وسلم۔۔۔أخرجہ البیھقي في المعرفۃ،ویشھد لہ صلاۃ أھل العوالي مع النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم الجمعۃ،کما في الصحیح،وصلاۃ أھل قباء معہ،کما رواہ ابن ماجہ و ابن خزیمۃ،وأخرج الترمذي من طریق رجل من أھل قباء عن أبیہ قال:أمرنا النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أن نشھد الجمعۃ من قباء،وروی البیھقي أن أھل ذي الحلیفۃ کانوا یجمعون بالمدینۃ،قال:ولم ینقل أنہ أذن لأحد في إقامۃ الجمعۃ في شيء من مساجد المدینۃ،ولا في القریٰ التي بقربھا‘‘[1] [امام ابو داود نے مراسیل میں بکیر بن الاشج سے روایت کی ہے کہ مدینہ طیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے ساتھ ساتھ نو مسجدیں تھیں۔۔۔اس کو امام بیہقی نے معرفت میں بیان کیا ہے اور اہلِ عوالی کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
[1] التلخیص الحبیر (۲/ ۵۵)