کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 225
[رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شعر کا تذکرہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ بھی ایک کلام ہے،جس کا مضمون اچھا ہے،وہ اچھا شعر ہے اور جس کا برا ہے،وہ برا ہے] نیز ’’مالا بد منہ‘‘ میں ہے: ’’شعر کلام است موزوں حسن او حسن است وقبیح،او قبیح لیکن بیشتر اضاعت وقت دراں مکروہ است‘‘[1] [شعر ایک موزوں کلام ہے،جو اچھا ہے،سو اچھا ہے اور جو برا ہے سو برا ہے،لیکن اس میں زیادہ وقت صَرف کرنا مکروہ ہے] اس کے حاشیے میں ہے: ’’یعنی اگر مضمونش مشتمل باشد بر حمدِ خدا یا نعتِ رسول یا تحریض بر ذکرِ خدا و عبادت یا مسئلہ دینیہ پس گفتنش و خواندنش ہر دو موجب ثواب و اجر است و اگر مشتمل باشد برامرِ مباح پس مباح است و اگر متضمن باشد بر امورِ ممنوعہ مثل بیان سرایا و خدوخال امردے یا زنے صاحب حسن کہ دراں شہر زندہ موجود باشد یا ہجو مسلمانے غیر ظالم پس انشادش ہر دو حرام کذا فی العینی شرح الکنز‘‘ واللّٰه أعلم بالصواب۔ [اگر شعر کا مضمون حمدِ خدا اور نعتِ رسول یا ذکرِ خدا و عبادت کی ترغیب پر مشتمل ہو یا اس میں کوئی دینی مسئلہ بیان کیا گیا ہو تو اس کا کہنا اور پڑھنا موجبِ ثواب ہے اور اگر مباح امر پر مشتمل ہو تو مباح ہے،لیکن اگر امورِ ممنوعہ پر مشتمل ہو،مثلاً کسی امرد یا عورت کے خدوخال کی تعریف یا کسی عادل مسلمان کی ہجو ہو تو اس کا لکھنا اور پڑھنا دونوں حرام ہیں ] حررہ خادم العلماء:محمد حسن عفا اللّٰه عنہ،وعن جمیع المؤمنین وآخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمین۔سید محمد نذیر حسین هو الموافق اس مضمون میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ شعر ایک کلام ہے کہ جس کا مضمون اچھا ہے،وہ اچھا ہے اور جس کا برا ہے،وہ برا ہے،مگر اس کے ساتھ خطبہ میں کبھی شعر پڑھنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے بھی ثابت نہیں۔خطبہ نبویہ و خطباتِ خلافت راشدہ اَشعار سے خالی ہوتے تھے۔فاتباع سنتہ صلی اللّٰه علیہ وسلم وسنۃ خلفائہ الراشدین المھدیین أولیٰ۔ھذا ما عندي،واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2] قریب رہنے والے تمام لوگوں کو ایک ہی جگہ جمعہ پڑھنا چاہیے: سوال:کیا فرماتے ہیں علماے دین اس صورت میں کہ ہم لوگ ایک گاؤں میں ایک مولوی صاحب اہلِ حدیث کے پیچھے
[1] مالا بد منہ از قاضی ثناء اللّٰه پانی پتی (ص:۱۲۶) مکتبہ رحمانیہ لاہور۔ [2] فتاویٰ نذیریہ (۱/۶۱۴)