کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 222
’’رسول‘‘ کہا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبی ہی کا لفظ کہو۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وأولیٰ ما قیل في الحکمۃ في ردہ صلی اللّٰه علیہ وسلم علی من قال:الرسول،بدل النبي،أن ألفاظ الأذکار توقیفیۃ،ولھا خصائص وأسرار،لا یدخلھا القیاس،فتجب المحافظۃ علیٰ اللفظ الذي وردت بہ،و ھذا اختیار المازري قال:فیقتصر فیہ علیٰ اللفظ الوارد بحروفہ،وقد یتعلق الجزاء بتلک الحروف،لعلہ أوحي إلیہ بھذہ الکلمات فیتعین أداؤھا بحروفھا‘‘[1] [رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس شخص پر،جس نے (دعا میں)نبی کے لفظ کے بجائے رسول کا لفظ پڑھا،رد کرنے کی حکمت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں اولیٰ یہ ہے کہ اذکار کے الفاظ توفیقی ہیں اور ان کے ایسے خصائص و اسرار ہیں جن میں قیاس کا کوئی دخل نہیں ہے،لہٰذا ان الفاظ کی محافظت کرنا واجب ہے،جن الفاظ میں وہ (دعا) وارد ہوئی ہے۔امام مارزی نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے،چنانچہ ان کا کہنا ہے:پس اس میں وارد شدہ لفظ کے حروف پر ہی اکتفا کیا جائے گا،اس لیے کہ بلاشبہہ انہی حروف کے ساتھ پڑھنے پر ہی جزا ملتی ہے،شاید انہی کلمات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی گئی ہو تو اس کو انہی حروف کے ساتھ ادا کرنا واجب ہو گیا ہو] رہی حضرت ثوبان کی حدیث مذکور سو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب امام کوئی دعا کرے تو فقط اپنے نفس ہی کے ساتھ مخصوص نہ کرے،بلکہ اس میں مقتدیوں کی بھی نیت کر لے۔حضرت ثوبان کی حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے اور اس حدیث کی تائید ابو امامہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہوتی ہے،پس امام مسجد مذکور کا اس حدیث کو ضعیف بتانا صحیح نہیں ہے۔ نمازِ جمعہ کے احکام و مسائل جمعہ کا خطبہ مختصر ہونا چاہیے: سوال:کیا جمعہ کے خطبے کو لمبا کرنا درست ہے؟ جواب:احادیثِ صحیحہ صریحہ سے ثابت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ مختصر پڑھتے تھے اور کسی حدیثِ صحیح صریح سے خطبہ جمعہ کا طویل پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتا،بلکہ اس کی نفی ثابت ہوتی ہے۔سنن ابو دواد میں ہے: ’’عن جابر بن سمرۃ عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أنہ کان لا یطیل الموعظۃ یوم الجمعۃ،إنما ھي کلمات یسیرات‘‘[2]
[1] فتح الباري (۱۱/۱۱۲) [2] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۱۱۰۷)