کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 221
میں یہ دعا امام کو بضمیر مفرد ہی پڑھنی چاہیے۔نمازِ فجر کے قنوت میں ’’اللّٰهم اھدني‘‘ بضمیر مفرد ہی پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی منقول ہے۔ تلخیص الحبیر (صفحہ:۹۵) میں ہے: ’’روی الحاکم في المستدرک من طریق عبد اللّٰه بن سعید المقبري عن أبیہ عن أبي ھریرۃ قال:کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم إذا رفع رأسہ من الرکوع في صلاۃ الصبح في الرکعۃ الثانیۃ،رفع یدیہ فیدعو بھذا الدعاء:اللّٰهم اھدني فیمن ھدیت،وعافني فیمن عافیت۔۔۔قال الحاکم:صحیح،ولیس کما قال:فھو ضعیف لأجل عبد اللّٰه،فلو کان ثقۃ لکان الاستدلال بہ أولیٰ من الاستدلال بحدیث الحسن بن علي الوارد في قنوت الوتر،وروی الطبراني في الأوسط من حدیث بریدۃ نحوہ،وفي إسنادہ مقال أیضاً ‘‘ یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع سے سر اٹھاتے تو دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا پڑھتے:(( اللّٰهم اھدني فیمن ھدیت وعافني فیمن عافیت۔۔۔)) اسی طرح حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ اگرچہ مستدرک حاکم اور طبرانی کی یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں،لیکن ہمارے مدعا کی تائید کے لیے کافی ہیں۔مگر علمائے شافعیہ و حنبلیہ کہتے ہیں کہ امام کو قنوتِ فجر میں (( اللّٰهم اھدنا )) بضمیر جمع پڑھنا مستحب ہے،کیونکہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہے: (( لا یؤم قوماً فیخص نفسہ بدعوۃ دونھم فإن فعل فقد خانھم )) [1] یعنی کوئی شخص جب کسی قوم کی امامت کرے تو خاص اپنے ہی لیے دعا نہ کرے۔اگر امام نے ایسا کیا تو مقتدیوں کی حق تلفی کی۔ اس حدیث کی وجہ سے علماے شافعیہ و حنبلیہ نے ’’اللّٰهم اھدنا‘‘ بضمیر جمع پڑھنا مستحب لکھا اور اسی وجہ سے ہماری جماعت کے بعض علما بضمیر جمع پڑھنا بہتر سمجھتے ہیں،مگر میرے نزدیک بہتر اور افضل یہی ہے کہ جب دعائے قنوت بضمیر مفرد ہی وارد ہوئی ہے اور اس دعا کا قنوتِ فجر میں بضمیر مفرد ہی پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مروی ہے تو ہم کو بھی بضمیر مفرد ہی پڑھنا چاہیے اور کچھ تغیر و تبدل نہ کرنا چاہیے،مگر امام کو چاہیے کہ اس دعا میں مقتدیوں کے شامل ہونے کی نیت کرے اور اس کو فقط اپنی ذات خاص ہی تک محدود نہ رکھے،اس دعا کے علاوہ بھی کسی اور دعائے ماثور کے کسی لفظ میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں کرنا چاہیے۔ایک صحابی نے ایک دعا میں بجائے لفظ ’’نبی‘‘ کے لفظ
[1] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۹۰) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۳۰۷) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۹۲۳)