کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 219
حسبِ حکم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عموماً تمام لوگ گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھتے تھے،چنانچہ حافظ جلال الدین سیوطی اپنے رسالہ ’’المصابیح في صلاۃ التراویح‘‘ (صفحہ:۱۹) میں لکھتے ہیں کہ سنن سعید بن منصور میں ہے: ’’حدثنا عبد العزیز بن محمد حدثني محمد بن یوسف سمعت السائب بن یزید یقول:کنا نقوم فی زمان عمر بن الخطاب بإحدي عشرۃ رکعۃ‘‘ الحدیث یعنی سائب بن یزید کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت عمر کے زمانے میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ حافظ سیوطی اس روایت کی سند کی نسبت لکھتے ہیں:’’سندہ في غایۃ الصحۃ‘‘ یعنی اس روایت کی سند نہایت صحیح ہے۔دیکھو نہایت صحیح سند سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر کے زمانے میں عموماً تمام لوگ حضرت عمر کے حکم سے گیارہ ہی رکعت تراویح پڑھتے تھے،رہی یہ بات کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود کتنی رکعت تراویح پڑھتے تھے؟ سو بالکل ظاہر ہے کہ جب آپ اوروں کو گیارہ رکعت پڑھنے کا حکم فرماتے تو خود بھی گیارہ ہی رکعت پڑھتے رہے ہوں گے۔ مجیب اول نے جو موطا سے یہ روایت نقل کی ہے: ’’عن یزید بن رومان قال:کان الناس یقومون في زمن عمر بن الخطاب بثلاث وعشرین رکعۃ‘‘ یعنی یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تئیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔سو یہ روایت منقطع ہے،اس وجہ سے ضعیف و غیر معتبر ہے۔علمائے حنفیہ نے بھی اس روایت کے منقطع ہونے کی تصریح کی ہے۔علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری (۲/۴۰۸) میں لکھتے ہیں:’’ویزید لم یدرک عمر،ففیہ انقطاع‘‘ یعنی یزید بن رومان نے حضرت عمر کا زمانہ نہیں پایا ہے،پس اس کی سند منقطع ہے۔ نیز اسی کتاب (۵/ ۳۵۶) میں لکھتے ہیں: ’’رواہ مالک في الموطأ بإسناد منقطع‘‘ یعنی امام مالک نے اس کو موطا میں منقطع سند سے روایت کیا ہے۔ حافظ زیلعی نے بھی اس روایت کی سند کو منقطع بتایا ہے۔حاصل یہ کہ خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے عموماً تمام لوگوں کا گیارہ رکعت تراویح پڑھنا نہایت صحیح سند سے ثابت ہے اور آپ کے زمانے میں آپ کے حکم سے عموماً تمام لوگوں کا تئیس رکعت مع وتر پڑھنا ہرگز ہرگز کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے۔ہمارے اتنے بیان سے صاف واضح ہوگیا کہ مجیب اول کی یہ بات کہ ’’زمانہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے موافق بیس رکعت پر اجماع ہوگیا۔‘‘ بالکل غلط ہے اور گیارہ رکعت تراویح کے قائلین کی نسبت مجیب اول نے جوتعریضاً ایک بے جا اور نا ملائم تقریر لکھی ہے،وہ خود انھیں پر اور ان کے ہم خیالوں پر عائد ہوگئی۔