کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 212
یمینہ فیقبل علینا بوجھہ‘‘[1] یعنی براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو اس بات کو محبوب رکھتے کہ ہم لوگ آپ کے دائیں جانب ہوں،پس آپ ہماری طرف اپنا چہرہ مبارک کر کے بیٹھیں۔ قاضی شوکانی نیل الاوطار (۲/ ۲۰۷) میں لکھتے ہیں: ’’حدیث البراء یدل علی أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم کان یقبل علیٰ من في جھۃ المیمنۃ،ویمکن الجمع بین الحدیثین (أي بین حدیث سمرۃ وبین حدیث البراء) بأنہ کان تارۃ یستقبل جمیع المؤتمین،وتارۃ یستقبل أھل المیمنۃ‘‘ انتھیٰ۔ھذا کلہ ما عندي،واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ [براء رضی اللہ عنہ کی حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ یقینا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف چہرہ کرتے جو دائیں جانب ہوتا تھا،ان دونوں حدیثوں (سمرہ اور براء رضی اللہ عنہما کی حدیثوں)کے درمیان جمع و موافقت ممکن ہے اور وہ اس طرح کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مقتدیوں کی طرف منہ کرتے اور کبھی دائیں جانب والے لوگوں کی طرف رخ کرتے تھے] أملاہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ نمازِ تراویح کے احکام و مسائل رکعاتِ تراویح کی تعداد: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ کتنی رکعتیں نمازِ تراویح کی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور خلفائے راشدین کا کیا عمل رہا ہے اور فی زماننا بعض آٹھ رکعت پر اکتفا کرتے ہیں اور بعض نے بیس رکعت پر مداومت کرنے کو زیادہ ثواب جانا ہے؟ افعال و اقوال جو آپ کے اور آپ کے خلفا کے ہوں،بیان فرمائیں۔ جواب:صورت مذکورہ فی السوال میں حال تراویح کا یہ ہے کہ زمانہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں ثبوت تراویح کا مختلف طور سے ہے۔بعض روایات سے آٹھ ثابت ہوتی ہیں اور بعض سے بیس سے زیادہ بھی ثابت ہوتی ہیں،لیکن زمانہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے موافق بیس رکعت پر اجماع ہوگیا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:(( لاَ تَجْتَمِعُ أُمَّتِيْ عَلَی الضَّلاَلَۃِ )) [2] ’’میری امت کا اجماع گمراہی پر نہیں ہو گا۔‘‘ خاص کر صحابہ کرام کا اجماع،اور صحاح میں یہ حدیث ہے:
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۸۰۹) [2] دیکھیں:السلسلۃ الصحیحۃ،رقم الحدیث (۱۳۳۱)