کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 209
’’اختلف أصحابہ في النفل فجوزوہ مشائخ بلخ،وعلیہ العمل عندھم وبمصر والشام،ومنعہ غیرھم،وعلیہ العمل بما وراء النھر‘‘[1] انتھیٰ ما في المرقاۃ شرح المشکاۃ لملا علي القاري۔ [احناف نفلی نماز میں نابالغ کی امامت کے بارے میں مختلف ہیں،بلخ،مصر اور شام کے مشائخ اس کو جائز کہتے ہیں اور اسی پر عمل کرتے ہیں اور ما وراء النہر کے مشائخ اس کو درست نہیں سمجھتے] صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک لڑکا چھے سات برس کا فرضوں کی جماعت امام بن کر کراتا تھا۔[2] واﷲ أعلم بالصواب۔ سید محمد نذیر حسین هو الموافق اس لڑکے کا نام عمرو بن سلمہ تھا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے سب کے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔نیل الاوطار میں ہے: ’’الذین قدموا عمرو بن سلمۃ کانوا کلھم أصحابہ رضي اللّٰه عنهم قال ابن حزم:ولا نعلم لھم مخالفا‘‘[3] یعنی جن لوگوں نے عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کو امام بنایا تھا،وہ سب کے سب صحابہ تھے،ابن حزم نے کہا کہ ہمیں ان صحابہ رضی اللہ عنہم کا کوئی مخالف معلوم نہیں۔ ابو داود اور احمد کی روایت میں اس لڑکے کا یہ بیان ہے کہ ’’فما شھدت مجمعا من جرم إلا کنت إمامھم‘‘[4] یعنی قبیلہ جرم کے جس مجمع میں میں حاضر ہوتا تھا،میں ہی اس مجمع کا امام ہوتا تھا۔عمرو بن سلمہ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرض نمازوں میں چھے سات برس کے لڑکے کی امامت جائز و درست ہے اور یہی مذہب ہے حسن بصری اور امام شافعی اور اسحاق کا،اور جب فرض نمازوں میں اس کی امامت اور اس کے پیچھے نماز کا پڑھنا درست ہے تو تراویح میں اس کی امامت بدرجہ اولیٰ درست ہوگی۔امام احمد اور امام ابو حنیفہ سے دو روایتیں آئی ہیں اور مشہور روایت ان دونوں اماموں سے یہ ہے کہ نوافل میں نابالغ لڑکے کی امامت درست ہے اور فرائض میں نادرست۔حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں: ’’وإلی صحۃ إمامۃ الصبي ذھب أیضاً الحسن البصري والشافعي وإسحاق،و کرھھا مالک والثوري،وعن أبي حنیفۃ وأحمد روایتان،والمشہور عنھما الإجزاء في النوافل دون الفرائض‘‘[5] انتھیٰ۔
[1] مرقاۃ المفاتیح (۴/ ۲۳۶) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۰۵۱) [3] نیل الأوطار (۳/ ۲۰۲) [4] مسند أحمد (۵/ ۲۹) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۵۸۷) [5] فتح الباري (۲/ ۱۸۶)