کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 205
فاستفتحت فمشیٰ ففتح لي،ثم رجع إلی مصلاہ،وذکرت أن الباب کان في القبلۃ‘‘[1]
یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نفلی نماز پڑھتے تھے اور دروازہ بند ہوتا،پس میں آتی اور دروازہ کھلواتی تو آپ چل کر دروازہ میرے لیے کھول دیتے،پھر اپنے مصلی پر چلے جاتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا کہ دروازہ قبلے کی جانب تھا۔واﷲ تعالیٰ أعلم
وعلمہ أتم۔کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2]
کیا نماز کے بعد امام کے ساتھ دعا میں شامل ہونا ضروری ہے؟
سوال:خالد بعد نماز فرض فوراً سنت پڑھنے لگتا ہے اور دعا میں کبھی شریک نہیں ہوتا۔سوال پر یہ علت بیان کرتا ہے کہ چونکہ امام صاحب دعا تاخیر سے کرتے ہیں،اس لیے میں شریک نہیں ہوتا،حالانکہ دعا میں دو یا تین منٹ صرف ہوتا ہے۔خالد کا دعا میں شریک نہ ہونا اور یہ علت بیان کرنا ازروئے قرآن و حدیث کیسا ہے اور اس پر کیا حکم ہے؟
سائل:عبدالرحیم،عفا اﷲ عنہ،مقام دو مہانی چٹی،ڈاکخانہ چرن پور ضلع بردوان
جواب:نماز سے فارغ ہونے کے بعد مقتدی کو امام کی دعا میں شریک ہونا ضروری نہیں ہے۔پس اگر خالد بعد نماز فرض کے فوراً سنت پڑھنا شروع کر دے تو اس پر شرعاً کوئی مواخذہ نہیں،لیکن بہتر اور افضل یہ ہے کہ جو اذکار اور دعائیں بعد نماز فرض کے احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہیں،ان کو پڑھ لیا کرے اور اگر امام دعا کرے تو دعا میں شریک ہوجائے اور امام کو بھی بعد نماز فرض کے دعا کرنے کے لیے بیٹھنا ضروری نہیں۔فقط ’’اللّٰهم أنت السلام،ومنک السلام۔۔۔الخ‘‘ پڑھ کر اٹھ جانا جائز ہے۔مشکاۃ شریف میں ہے:
’’عن عائشۃ رضي اللّٰه عنها قالت:کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم إذا سلم لم یقعد إلا مقدار ما یقول:اللّٰهم أنت السلام و منک السلام،تبارکت یا ذا الجلال والإکرام۔۔۔‘‘[3]
کتبہ:محمد إسماعیل المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔
ھذہ الأجوبۃ صحیحۃ،کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔
امامت کے احکام و مسائل
امامت کا حق دار:
سوال:امامت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟
[1] مسند أحمد (۶/ ۲۳۴) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۹۲۲) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۶۰۱) سنن النسائي،رقم الحدیث (۱۲۰۶)
[2] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۵۰۸)
[3] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۵۹۲) مشکاۃ المصابیح (۱/ ۲۱۰)