کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 200
أن جمع التقدیم فیہ خطر عظیم،وھو کمن صلیٰ الصلاۃ قبل دخول وقتھا،فیکون حال الفاعل کما قال اللّٰه:{وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا} الآیۃ من ابتدائھا وھذہ الصلاۃ المتقدمۃ لا دلالۃ علیھا بمنطوق ولا مفھوم ولا عموم ولا خصوص‘‘[1] انتھیٰ۔ما في السبل۔واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ [اکثر ائمہ حضر میں جمع کے قائل نہیں ہے اور ان کی دلیل وہ حدیثیں ہیں،جن میں اوقات کی پابندی لازمی قرار دی گئی ہے اور دوسرا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اوقاتِ نماز پر پابندی کرنا۔چنانچہ ابن مسعود کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی کوئی نماز بے وقت نہیں پڑھی سوائے مزدلفہ کی دو نمازوں کے کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشا کو جمع کیا اور صبح کی نماز وقت سے پہلے پڑھی۔صحیح مسلم کی ابن عباس والی حدیث کہ آپ نے بغیر کسی عذر کے مدینے میں نمازیں جمع کر کے پڑھیں،اس سے استدلال درست نہیں ہے،کیوں کہ اس میں جمع تقدیم و تاخیر کی تعیین نہیں ہے اور اگر کوئی تعیین کرے تو یہ زبردستی ہے اس لیے جس حدیث میں معذور اور غیر معذور کے لیے اوقات کا ذکر ہوا ہے اسی عموم کو باقی رکھنا ضروری ہے،مسافر کی تخصیص مخصص کے ثبوت کی وجہ سے ہے،یہی فیصلہ کن جواب ہے۔باقی رہے صحابہ اور تابعین کے آثار تو وہ حجت نہیں ہیں،کیوں کہ اس میں اجتہاد کا دخل ہے،بعض نے ابن عباس کی حدیث کو جمع صوری پر محمول کیا ہے۔مثلاً قرطبی،ماجشون،طحاوی،ابن سید الناس اسے قوی قرار دیا ہے،کیوں کہ راویِ حدیث نے ابو الشعثاء سے پوچھا کہ آپ نے شاید جمع صوری کی ہو تو اس نے کہا:میرا بھی یہی خیال ہے۔ابن سید الناس کہتے ہیں:’’حدیث کا راوی اس کا مطلب اچھا جانتا ہے۔‘‘ تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ الفاظِ حدیث کی تشریح اس کی معتبر ہے،لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی صراحت کے ساتھ ان کا اپنا عمل بھی اس کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینے میں سات رکعات،آٹھ رکعات جمع کر کے پڑھی ہیں۔آپ نے ظہر کو موخر کیا اور عصر کو مقدم اور مغرب کو موخر کیا اور عشا کو مقدم۔ تعجب ہے کہ نووی نے اس تاویل کو کیسے ضعیف قرار دیا اور حدیث مروی کے متن سے کیسے غافل رہا اور مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے،جب کہ ان کا واقعہ ایک ہی ہو،جیسا کہ اس حدیث میں ہے اور جمع صوری کی تاویل کو یہ قول ضعیف قرار دیتا ہے کہ ’’آپ کی امت پر آسانی ہو‘‘ لیکن یہ غلط ہے،جمع صوری میں بھی تو آسانی ہوتی ہے،کیوں کہ نماز کی تیاری اور وضو وغیرہ ایک ہی دفعہ کرنا پڑتا ہے اور وقت پر نماز پڑھنے کی نسبت اس میں آسانی ہے اور مسافر پر حاضر کو قیاس کرنا وہم ہے،کیوں کہ اصل میں علت سفر
[1] سبل السلام (۱/ ۴۹)