کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 198
نیز حدیثِ مذکور میں جمع صوری مراد ہونے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی حدیث (( جمع بین الصلاتین في المدینۃ )) کو روایت کیا ہے اور انھیں عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ روایت آئی ہے: ’’خرج علینا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فکان یؤخر الظھر ویعجل العصر فیجمع بینھما ویؤخر المغرب ویعجل العشاء فیجمع بینھما‘‘[1] (رواہ ابن جریر) یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے،پس ظہر میں تاخیر اور عصر میں تعجیل فرما کر دونوں کو جمع کیا اور مغر ب میں تاخیر اور عشا میں تعجیل فرما کر دونوں کو جمع کیا۔پس عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ روایت صاف بتاتی ہے کہ حدیث جمع بین الصلاتین میں جو مطلق جمع کا لفظ وارد ہوا ہے،جمع صوری ہی مراد ہے،نیز جمع بین الصلاتین کی تین صورتیں ہیں،جمع تقدیم،جمع تاخیر اور جمع صوری،اور حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما میں لفظ ’’جمع بین الظھر والعصر وبین المغرب والعشاء‘‘ تینوں صورتوں کو شامل نہیں ہوسکتا اور نہ ان میں سے دو کو،کیونکہ لفظ جمع فعل مثبت ہے اور فعل مثبت اپنے اقسام میں عام نہیں ہوتا،کما صرح بہ أئمۃ الأصول،پس لفظ جمع سے ایک ہی صورت مراد ہوگی اور ایک صورت خاص کا متعین ہونا دلیل پر موقوف ہے اور جمع صوری کے متعین ہونے پر دلیل قائم ہے،لہٰذا یہی صورت متعین ہوگی۔[2] انتہیٰ کلام الشوکاني مترجما و ملخصاً۔ علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں جمع بین الصلاتین پر تفصیل کے ساتھ بہت اچھی بحث کی ہے،آخر میں لکھتے ہیں: ’’القول بأن ذلک الجمع صوري متحتم،وقد جمعنا في ھذہ المسألۃ رسالۃ مستقلۃ،سمیناھا:تشنیف السمع بإبطال أدلۃ الجمع‘‘[3] انتھیٰ [یہ کہنا کہ یہ جمع صوری تھی،یہی حتمی ہے۔ہم نے اس مسئلے میں ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے،جس کا نام ’’تشنیف السمع بابطال أدلۃ الجمع‘‘ ہے] علامہ محمد بن اسماعیل الامیر ’’سبل السلام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’وأما الجمع في الحضر فقال الشارح بعد ذکر أدلۃ القائلین بجوازہ فیہ:إنہ ذھب أکثر الأئمۃ إلی أنہ لا یجوز الجمع في الحضر،لما تقدم من الأحادیث المبینۃ لأوقات الصلوات،ولما تواتر من محافظۃ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم علیٰ أوقاتھا؛ حتی قال ابن مسعود:ما رأیت النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم صلیٰ صلاۃ لغیر میقاتھا إلا صلاتین،جمع بین المغرب والعشاء بجمع،وصلیٰ الفجر یومئذ قبل میقاتھا،وأما حدیث ابن عباس عند مسلم
[1] سنن النسائي،رقم الحدیث (۵۸۹) [2] نیل الأوطار (۳/ ۲۶۴) [3] مصدر سابق۔