کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 196
و عن جابر رضی اللّٰه عنہ أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم جاء ہ جبریل عليه السلام فقال لہ:(( قُمْ فَصَلِّ الظُّھْرَ حِیْنَ زَالَتِ الشَّمْسُ )) [1] الحدیث‘‘ [نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل آئے اور کہا:اُٹھیے،پھر جب سورج ڈھل گیا تو ظہر کی نماز پڑھی] ہر نماز کو اپنے اپنے وقت پر پڑھنا،جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے،فرض ہے اور جمع تقدیم یا تاخیر حنفیہ کے نزدیک سوائے حج کے مطلقاً جائز نہیں ہے،جیسا کہ شرح وقایہ اور دیگر معتبراتِ فقہ میں ہے:’’ولا یجمع فرضان في وقت بلا حج‘‘[2] [کسی ایک وقت میں دو فرض نمازیں جمع نہ کی جائیں سوائے حج کے] شافعیہ اور محدثین کے نزدیک سفر میں جائز ہے،جیسا کہ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اور بارش میں جمع کرنے کی کوئی صحیح و صریح دلیل کتب فقہ و حدیث سے پائی نہیں جاتی،جیسا کہ ماہرینِ فقہ و حدیث پر مخفی نہیں اور حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما ’’أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم جمع بین الظھر والعصر وبین المغرب والعشاء بالمدینۃ من غیر خوف ولا مطر قیل لابن عباس رضی اللّٰه عنہ:ما أراد بذلک؟ قال:أراد أن لا یحرج أمتہ‘‘[3] یعنی جمع کیا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر کو اور مغرب و عشا کو مدینے میں بغیر خوف و مطر کے،سو یہ جمع صوری پر محمول ہے،جیسا کہ صحیح نسائی میں موجود ہے۔[4] حررہ:محمد جمال الدین بن حافظ غلام رسول بن حافظ محمود،ساکن امرتسر مسجد باغ والی۔سید محمد نذیر حسین هو الموافق حضر میں ہر روز بلاناغہ نماز کو جمع کر کے پڑھنا جائز نہیں ہے،اس واسطے کہ یہ کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے۔رہی حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہما جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں بلا کسی عذر کے نماز کو جمع کر کے پڑھا ہے،سو اہلِ علم نے اس کے متعدد جواب لکھے ہیں۔ازاں جملہ ایک یہ ہے کہ اس حدیث میں جمع بین الصلاتین سے مراد جمع صوری ہے،یعنی ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھا،وعلی ہذا القیاس مغرب و عشا کو پڑھا،اس جواب کو علامہ قرطبی نے پسند کیا ہے اور امام الحرمین نے اس کو ترجیح دی ہے،قدماء میں سے ابن الماجشون اور طحاوی نے اسی کے ساتھ جزم کیا ہے اور ابن سید الناس نے اس کو قوی بتایا ہے،اس وجہ سے کہ اس حدیث کے راوی ابو الشعثاء (جنھوں نے اس کو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے) کا بھی یہی خیال تھا کہ اس حدیث میں جمع سے جمع صوری مراد ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس کی تقویت اس سے ہوتی ہے کہ حدیث کے کسی طریق میں جمع کے وقت کا
[1] مسند أحمد (۳/ ۳۳۰) [2] عمدۃ الرعایۃ (۲/ ۲۲۰) [3] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۷۰۵) [4] سنن النسائي،رقم الحدیث (۵۸۹) اس حدیث کے ایک راوی جابر بن زید نے جمع صوری کی صراحت کی ہے،یہ مرفوع روایت کا حصہ نہیں ہے،جیسا کہ آگے وضاحت آ رہی ہے۔