کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 195
گی،نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا] اور حدیث صحیح (( أیما عبد أبق من موالیہ فقد کفر )) [1] [جو غلام اپنے مالک سے بھاگ جائے وہ کافر ہوگیا] اور حدیث صحیح (( من قال لأخیہ:یا کافر فقد باء بھا أحدھما )) [2] وغیر ذلک من الأحادیث۔[جس نے اپنے بھائی کو کہا:اے کافر! وہ خود کافر ہوگا] ان تمام احادیث میں کفر سے بالاتفاق اسی قسم کا کفر مراد ہے۔ قال الشوکاني:الکفر أنواع،منھا ما لا ینافي المغفرۃ،ککفر أھل القبلۃ ببعض الذنوب التي سماھا الشارع کفرا،و ھو یدل علیٰ عدم استحقاق کل تارک الصلاۃ للتخلید في النار۔۔۔وقال:سبب الوقوع في مضیق التأویل توھم الملازمۃ بین الکفر وعدم المغفرۃ،ولیست بکلیۃ،وانتفاء کلیتھا یریحک من تأویل ما ورد في کثیر من الأحادیث۔۔۔وقال:من سماہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کافرا،سمیناہ کافرا ولا نزید علی ھذا المقدار،ولا نتأول بشییٔ منھا لعدم الملجأ إلی ذلک‘‘[3] واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ [امام شوکانی رحمہ اللہ نے کہا:کفر کی کئی قسمیں ہیں ؛ ان میں بعض وہ بھی ہیں،جن کی مغفرت ہوسکتی ہے،جیسے اہلِ قبلہ کا کفر اُن اعمال کی وجہ سے جن کو شارع نے کفر کہا ہے اور وہ دلالت کرتا ہے کہ تارکِ نماز ہمیشہ کے لیے جہنم کا مستحق نہیں ہے،تاویل کی تنگنائے میں داخل ہونے کا سبب یہ ہے کہ ہم نے کفر اور عدمِ مغفرت کو لازم ملزوم سمجھ لیا ہے،حالاں کہ یہ کوئی کلیہ نہیں ہے اور اس کلیے کی نفی تجھے بہت سی حدیثوں کی تاویل سے نجات دلا دے گی۔جس کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کافر کہا ہے،ہم بھی اس کو کافر کہیں گے اور اس پر کچھ زیادہ نہ کریں گے اور نہ اس کی کوئی تاویل کریں گے،کیوں کہ اس سے مفر نہیں ہے] کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[4] سید محمد نذیر حسین کیا ہر روز نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے؟ سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ روز بلا ناغہ نماز کو جمع کر کے پڑھنا،یعنی نمازِ ظہر کو عصر کے ساتھ اور مغرب کو عشا کے ساتھ پڑھنا یا برعکس،جائز ہے یا نہیں ؟ جواب:قال اللّٰه تعالیٰ:{اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا} [النساء:۱۰۳] [ایمانداروں پر نماز وقتِ مقرر پر فرض کی گئی ہے]
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۶۸) [2] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۶۰) [3] نیل الأوطار (۱/ ۳۷۶) [4] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۴۶۱)