کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 194
حدیث (( من شھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰه وحدہ لا شریک لہ،وأن محمدا عبدہ ورسولہ،وأن عیسیٰ عبد اللّٰه وکلمتہ ألقاھا إلیٰ مریم وروح منہ،والجنۃ حق والنار حق،أدخلہ اللّٰه الجنۃ علی ما کان من العمل )) [1] (متفق علیہ) [جو آدمی شہادت دے کہ اﷲ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اور عیسیٰ اﷲ کے بندے اور اس کا کلمہ ہیں،جس کو اس نے مریم کی طرف ڈالا اور اس کی طرف سے روح ہے اور جنت دوزخ حق ہے،اﷲ اسے جنت میں داخل کرے گا،خواہ اس کے عمل کیسے ہی کیوں نہ ہوں ] اور حدیث (( ما من عبد یشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰه وحدہ وأن محمدا عبدہ ورسولہ،إلا حرمہ اللّٰه علی النار قال (أي معاذ):أفلا أخبر بھا الناس۔الحدیث )) [2] (متفق علیہ) [جو آدمی شہادت دے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اﷲ اس کو آگ پر حرام کر دے گا] اور حدیث (( شفاعتي نائلۃ إن شاء اللّٰه من مات من أمتي لا یشرک باللّٰه شیئاً )) [3] (رواہ مسلم،وغیر ذلک من الأحادیث) [میری شفاعت ان شاء اﷲ ہر اس آدمی کو پہنچے گی،جو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گا] سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تارک الصلاۃ کافر نہیں ہے،بلکہ وہ مغفرتِ الٰہی و شفاعتِ نبوی و دخولِ جنت کا مستحق ہے۔
پس علامہ ممدوح کی تحقیق پر ان احادیثِ مختلفہ میں کسی کی تاویل کرنے کی کچھ ضرورت نہیں ہے،بلکہ یہ تمام احادیث اپنے ظاہر معنی پر محمول ہیں،کیونکہ جن احادیث سے تارک الصلاۃ کا کفر ثابت ہوتا ہے،ان احادیث سے وہ بلاشبہہ کافر ہیں اور ان کو کافر کہنا روا ہے،مگر ہاں تارک الصلاۃ کا کفر ایسا کفر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ملتِ اسلام سے خارج ہوجائے اور مغفرت و شفاعت و دخولِ جنت کا مستحق نہ رہے،بلکہ تارک الصلاۃ کا کفر وہ کفر ہے جس کی وجہ سے نہ وہ ملتِ اسلام سے خارج ہوتا ہے اور نہ استحقاقِ مغفرت و شفاعت و دخولِ جنت سے محروم ہوتا ہے۔
ہاں واضح رہے کہ ایسا کفر جو نہ مخرج از ملتِ اسلام ہو اور نہ مانع از استحقاق مغفرت و شفاعت ہو،احادیث سے ثابت ہے۔دیکھو حدیث متفق علیہ:(( سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر )) [4] [مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ جنگ کرنا کفر ہے] اور حدیث متفق علیہ (( لیس من رجل ادعی لغیر أبیہ وھو یعلمہ إلا کفر )) [5] [جو آدمی جان بوجھ کر اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کی طرف نسبت کرے وہ کافر ہے] اور حدیث مسلم (( اثنتان في الناس ھما بھم کفر:الطعن في النسب والنیاحۃ علی المیت )) [6] [لوگوں میں دو چیزیں کفر کی نشانی رہ جائیں
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۳۲۵۲) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۸)
[2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۲۸) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۳۲)
[3] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۹۹)
[4] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۸) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۶۴)
[5] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۳۳۱۷) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۶۱)
[6] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۶۷)