کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 189
[انس بن مالک ایک مسجد میں آئے،وہاں جماعت ہوچکی تھی۔آپ نے اذان اور تکبیر کہہ کر جماعت کرا لی]
پس امر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم و فعلِ صحابہ اور تابعین سے متحقق ہوا کہ جماعت دوسری مسجد واحد میں بلا کراہت صحیح و جائز ہے۔واللّٰه أعلم بالصواب۔حررہ و اجابہ:خاکسار محمد مسعود نقشبندی دہلوی،۲۹ربیع الاول ۱۲۹۳ھ
سید محمد نذیر حسین
هو الموافق تکرارِ جماعت بلا کراہت جائز ہے،ایک مصلیٰ پر ہو خواہ ایک مصلیٰ پر نہ ہو۔جامع ترمذی کی حدیثِ مذکور اور انس رضی اللہ عنہ کا اثرِ مذکور جواز پر صاف دلالت کرتا ہے اور مطلقاً تکرارِ جماعت کا مکروہ ہونا یا ایک مصلیٰ پر نہ ہو تو مکروہ نہ ہونا سو اس کی کوئی دلیل میری نظر سے نہیں گزری ہے اور اسی طرح مجیب نے جو تشقیق شامی سے نقل کی ہے،اس کی بھی کوئی دلیل میری نظر سے نہیں گزری ہے۔واللّٰه أعلم۔
عبدالرحمن بن ابی بکر کی حدیث جو سائل نے نقل کی ہے،وہ بالکل غیر معتبر اور ناقابلِ احتجاج ہے،کیونکہ نہ اس کے مخرج کا پتا ہے اور نہ اس کی سند کا حال معلوم۔فقہائے حنفیہ یوں ہی بلاسند و بلا ذکر مخرج اس کو ذکر کرتے ہیں اور اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ حدیث قابلِ احتجاج ہے تو اس سے تکرارِ جماعت کی کراہت ثابت نہیں ہوتی ہے جیسا کہ مجیب نے بیان کیا ہے۔
واللّٰه أعلم۔کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1]
کیا باجماعت نماز پڑھنے والا دوسری بار جماعت دیکھ کر اس میں شامل ہوسکتا ہے؟
سوال:ما قول السادۃ العلماء الکرام في رجل صلیٰ مع جماعۃ،ثم أدرک جماعۃ أخریٰ،یصلون تلک الصلاۃ،ھل لہ أن یصلي معھم ثانیاً؟
[اگر کوئی آدمی جماعت سے نماز پڑھ لے،پھر دوسری جماعت اس کو مل جائے تو کیا وہ ان کے ساتھ بھی نماز پڑھ سکتا ہے یا نہیں ؟]
جواب:نعم،جاز لہ أن یصلي معھم ثانیاً،لحدیث یزید بن الأسود قال:شھدت مع النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم حجۃ،فصلیت معہ صلاۃ الصبح في مسجد الخیف،فلما قضیٰ صلاتہ،انحرف،فإذا ھو برجلین في أخریٰ القوم،لم یصلیا،فقال:علي بھما،فجيء بھما ترعد فرائصھما،فقال:ما منعکما أن تصلیا معنا؟ فقالا:یا رسول اللّٰه! إنا کنا قد صلینا في رحالنا،قال:فلا تفعلا،إذا صلیتما في رحالکما،ثم أتیتما المسجد جماعۃ،فصلیا معھم،فإنھا لکما نافلۃ۔[2]
[1] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۴۵۶)
[2] مسند أحمد (۴/ ۱۶۰) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۱۹) سنن النسائي،رقم الحدیث (۸۵۸)