کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 188
عَلیٰ ھَذَا؟ )) فقام رجل،وصلی معہ۔رواہ الترمذي،وھو قول غیر واحد من أھل العلم من أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم وغیرہم من التابعین قالوا:لا بأس أن یصلي القوم جماعۃ في مسجد قد صلي فیہ،وبہ یقول أحمد وإسحاق‘‘[1]
[ایک آدمی مسجد میں آیا جماعت ہوچکی تھی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کون ہے جو اس آدمی پر صدقہ کرے تو ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھی۔صحابہ اور تابعین میں سے اہلِ علم حضرات کا یہی مسلک ہے کہ دوبارہ جماعت کرا لینا درست ہے،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔امام احمد اور اسحاق کا بھی یہی مذہب ہے]
اور ابو داود میں اس طرح سے آئی ہے:
’’عن أبي سعید الخدري أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أبصر رجلا وحدہ فقال:(( أَلاَ رَجُلٌّ یَّتَصَدَّقُ عَلیٰ ھَذَا فَیُصَلِّيْ مَعَہُ؟‘‘[2]
[رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا،وہ اکیلا نماز پڑھ رہا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ مل کر نماز پڑھے]
پس جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے واسطے فضیلت حاصل کرنے جماعت کے اس شخص کو حکم شامل ہونے کا دیا کہ پہلے نماز پڑھ چکا تھا تو جن اشخاص نے کہ نماز نہ پڑھی ہو،ان کو بالاولیٰ جماعت دوسری کرنی بلا کراہت ایک مسجد میں جائز ہوئی اور یہ امر نہیں ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب کو جماعت دوسری کا حکم فرما دیں اور آپ نہ کریں۔پس متحقق ہوا کہ حدیث مذکور فی السوال کا موردیہ ہے کہ اس وقت دوسرا نمازی کوئی نہ تھا۔اگر ہوتا تو ضرور مسجد ہی میں نماز پڑھتے،کیونکہ جماعت کی بہت تاکید احادیث میں آئی ہے۔علاوہ ازیں چونکہ امر کو ترجیح اور غلبہ ہے فعل غیر ہمیشگی پر،اس لیے حدیثِ ترمذی پر عمل کرنا اولیٰ اور اقدم ہوا اور تیسری وجہ یہ کہ حدیث ترمذی کی نص صریح ہے واسطے جماعت دوسری کے اور حدیث مذکور فی السوال سے دلالتاً نکلتا ہے اور اصولِ فقہ میں مندرج ہے کہ بحالت تعارض عبارۃ النص و دلالۃ النص کی عبارت کو ترجیح دیتے ہیں دلالۃ النص پر۔اور چوتھی یہ کہ نہ پڑھنا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ جماعت دوسری مکروہ ہے،بلکہ دیگر اموراتِ عارضہ پر بھی دلالت کرتا ہے،پس اختیار امر واحد کا بلا دلیل قابلِ اعتبار نہیں۔صحیح بخاری میں آیا ہے کہ حضرت انس مسجد میں آئے اور جماعت ہوچکی تھی،پس اذان کہی اور تکبیر کہی اور جماعت سے نماز پڑھی:
’’وجاء أنس بن مالک إلیٰ مسجد قد صلي فیہ فأذن وأقام وصلی جماعۃ‘‘[3]
[1] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۲۲۰)
[2] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۵۷۴)
[3] صحیح البخاري مع فتح الباري (۲/ ۱۳۱)