کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 181
فلم یرجع،فلو تعمد المصلي الرجوع بعد تلبسہ بالرکن،بطلت صلاتہ عند الشافعي،خلافا للجمھور‘‘ ۱ھ [جو شخص پہلا تشہد بھول جائے اور (تیسری) رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے تو پھر اسے (حالتِ قیام میں)یاد آجائے تو اب وہ نہ بیٹھے۔ایسی حالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ’’سبحان اﷲ‘‘ کہا،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (تشہد میں)نہ بیٹھے۔پھر اگر وہ رکن میں لگ جانے کے بعد (تشہد کی طرف) پلٹنے کا قصد کرے گا تو جمہور کے برخلاف امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی نماز باطل ہوجائے گی] حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اللہ ’’حجۃ اللّٰه البالغۃ‘‘ (ص:۲۱۱)میں تحریر فرماتے ہیں: ’’فإن رجع لا أحکم ببطلان صلاتہ‘‘ اھ یعنی اگر پھر بیٹھ جائے تو میں بطلانِ نماز کا حکم نہیں لگائوں گا۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ ’’نیل الأوطار‘‘ (۲/ ۳۷۱) میں فرماتے ہیں: ’’فإن عاد عالما بالتحریم،بطلت لظاھر النھي،ولأنہ زاد قعودا،وھذا إذا تعمد العود،فإن عاد ناسیا لم یبطل صلاتہ‘‘ اھ یعنی اگر پھر بیٹھ جائے اور یہ جانتا ہو کہ پھر بیٹھ جانا حرام ہے تو نماز باطل ہوجائے گی ظاہر نہی کی وجہ سے اور اس وجہ سے بھی کہ اس نے ایک قعود زیادہ کر دیا اور نماز کا بطلان اس صورت میں اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ عمداً بیٹھ جائے اور اگر بھول کر بیٹھ جائے تو نماز باطل نہیں ہو گی۔ یہی قول اَقرب اِلی الصواب معلوم ہوتا ہے،کیونکہ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً و فعلاً ثابت ہوچکا کہ سیدھا کھڑا ہو جانے کے بعد پھر نہ بیٹھے اور اس صورت میں پھر بیٹھنے سے جس کی صریح نہی آچکی تو جو شخص بعد علم اس نہی کے عمداً پھر اس کام کو کرے،یعنی عمداً پھر بیٹھ جائے تو بلاشبہہ اس پر یہ بات صادق آئے گی کہ اس نے ایسا کام کیا،جس کا حکم اس کو منجانب شارع نہ تھا،یعنی اس نے خلافِ قانونِ شرع یہ کام کیا اور صحیحین میں ہے: (( من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رد )) [1] یعنی جو شخص ایسا کام کرے،جس کا حکم اس کو منجانب شارع نہ ہو،یعنی وہ کام خلافِ قانون شرع ہو،وہ کام مردود ہے،یعنی شرعاً نا مقبول و نامعتبر و باطل ہے اور جب وہ کام شرعاً نا مقبول و نامعتبر و باطل ہوا تو اس کے فاسد ہونے میں کیا شبہہ رہا اور اس کام کے خلافِ قانونِ شرع ہونے سے اس نماز پر بھی،جس میں یہ کام کیا گیا،یہ صادق آیا کہ وہ نماز خلافِ قانون شرع پڑھی گئی تو بحکم حدیثِ صحیحین مذکورہ بالا وہ نماز ہی شرعاً نا مقبول و نامعتبر و فاسد ہوگئی،لیکن جو شخص اس کام کو بلا علم
[1] صحیح البخاري (۲/۷۵۳) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۷۱۸)