کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 180
سجدتین،وسلم،وقال:ھکذا صنع بنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘[1] (رواہ أحمد والترمذي وصححہ) [زیاد بن علاقہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں نماز پڑھائی،جب انھوں نے دو رکعتیں پڑھا لیں تو اس کے بعد وہ کھڑے ہوگئے (تشہد کے لیے) نہیں بیٹھے۔پیچھے سے لوگوں نے ’’سبحان اﷲ‘‘ کہا تو انھوں نے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ کھڑے ہو جاؤ،پھر جب وہ اپنی نماز سے فارغ ہوئے تو انھوں نے سلام پھیرا،پھر دو سجدے کیے اور سلام پھیرا۔اس کے بعد فرمایا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ یہی کیا تھا] وعن المغیرۃ بن شعبۃ قال:قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:(( إِذَا قَامَ أَحَدُکُمْ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ فَلَمْ یَسْتَتِمَّ قَائِماً فَلْیَجْلِسْ،وَإِنِ اسْتَتَمَّ قَائِماً فَلاَ یَجْلِسْ،وَسَجَدَ سَجَدَتِيْ السَّھْوِ )) [2] (رواہ أحمد و أبو داود و ابن ماجہ،منتقیٰ الأخبار) [مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی دو رکعتوں میں کھڑا ہو جائے۔اگر تو وہ ابھی سیدھا کھڑا نہ ہوا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر سیدھا کھڑا ہو چکا ہو تو پھر نہ بیٹھے،بلکہ سہو کے دو سجدے کرے] اور یہ کسی حدیث میں صاف اور صریح طور سے نہیں آیا ہے کہ اگر سیدھا کھڑا ہو کر بیٹھ جائے تو نماز فاسد ہوجائے گی یا نہیں فاسد ہوگی۔اسی وجہ سے اس مسئلے میں علما میں اختلاف پڑ گیا ہے۔حنفی مذہب میں اس مسئلے میں دو قول ہیں۔ایک یہ ہے کہ نماز فاسد ہوجائے گی۔دوسرا یہ کہ فاسد نہیں ہو گی۔در مختار میں ہے: ’’فلو عاد إلی القعود بعد ذلک (أي بعد ما استقام قائما) تفسد صلاتہ،وصححہ الزیلعي،وقیل:لا تفسد،وھو الأشبہ کما حققہ الکمال،و ھو الحق۔بحر‘‘[3] ۱ھ [پھر اگر وہ بیٹھ جائے،(سیدھا کھڑے ہونے کے بعد) تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔زیلعی نے اس موقف کو صحیح قرار دیا ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی اور یہی زیادہ صحیح بات ہے،جیسا کہ علامہ ابن ہمام نے اسے ثابت کیا ہے اور یہی حق ہے] شافعی مذہب میں اگر عمداً پھر بیٹھ جائے گا تو نماز باطل ہو جائے گی اور جمہور کے نزدیک باطل نہیں ہو گی۔فتح الباری (۱/ ۶۳۶ چھاپہ دہلی) میں ہے: ’’من سھا عن التشھد الأول حتی قام إلی الرکعۃ،ثم ذکرہ،لا یرجع،فقد سبحوا بہ صلی اللّٰه علیہ وسلم
[1] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۱۰۳۷) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۳۶۵) مسند أحمد (۴/۲۴۷) [2] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۱۰۳۶) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۱۲۰۸) مسند أحمد (۴/۲۵۳) [3] رد المحتار مع الدر المختار (۲/۸۴)