کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 175
الضالین،سمعت لھم رجۃ بآمین،والجھر بالمأموم ذھب إلیہ الشافعي في القدیم،وعلیہ الفتویٰ،وقال الرافعي:قال الأکثر في المسئلۃ قولان،أصحہما أنہ یجھر‘‘[1] انتھی۔ [زین بن منیر کہتے ہیں کہ حدیث سے ترجمہ باب کی مناسبت کئی طرح سے ہے،حدیث میں آمین کہنے کا حکم ہے۔قول کے ساتھ جب خطاب مطلق واقع ہو تو اسے جہر پر محمول کیا جاتا ہے اور اگر اس سے سر مراد ہو تو اسے مقید طور پر بیان کیا جاتا ہے۔دوسرا یہ کہ آپ نے ’’قال‘‘ کے مقابلے میں ’’قولوا‘‘ فرمایا ہے اور جب قول،قول کے مقابل ہو تو اس سے وہی کیفیت مراد ہوتی ہے،جو پہلے کی ہو تو جب امام {وَلَا الضَّالِیْنَ} بلند آواز سے کہے گا تو آمین بھی بلند آواز سے ہوگی۔تیسری یہ کہ ’’قولوا‘‘ کا لفظ مطلق واقع ہوا ہے اور اس پر جہر کی صورت میں عمل ہوا ہے تو مطلق پر جب ایک صورت میں عمل ہوجائے تو وہ بالاتفاق دوسری صورت میں حجت نہیں رہتا۔چوتھی یہ کہ مقتدی کو امام کی اقتدا کا حکم ہے اور چوں کہ امام جہر سے قراء ت کرتا ہے،لہٰذا مقتدی بھی جہر سے آمین کہے گا۔اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ امام قراء ت جہر سے کرتا ہے اور مقتدی جہر سے نہیں کرتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ قراء ت بلند آواز سے نصِ صریح سے منع ہوگئی،لیکن آمین چوں کہ قراء ت نہیں تھی،وہ اپنے حال پر باقی رہی،نیز اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ ابن زبیر اور ان کے مقتدی بلند آواز سے آمین کہتے تھے۔عطا کہتے ہیں کہ میں نے دو سو صحابہ کو اس مسجد میں بلند آواز سے آمین کہتے دیکھا ہے،جس سے مسجد کانپ جاتی تھی۔امام شافعی کے نزدیک مقتدی بلند آواز سے آمین کہے۔رافعی کہتے ہیں:اکثر اس مسئلے میں دو قول بیان کرتے ہیں۔ان سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ بلند آواز سے آمین کہے] واللّٰه تعالیٰ أعلم،کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2] کیا نماز میں ’’ربنا لک الحمد‘‘ بلند آواز سے کہنا چاہیے؟ سوال:’’ربنا لک الحمد‘‘ نماز میں بآواز بلند کہنا چاہیے یا نہیں ؟ جواب:بخاری شریف کی اس روایت سے بآواز بلند کہنا ثابت ہوتا ہے: عن رفاعۃ بن رافع الزرقي قال:کنا یوما نصلي وراء النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم،فلما رفع رأسہ من الرکعۃ،قال:(( سَمِعَ اللّٰه لِمَنْ حَمِدَہُ )) قال رجل وراء ہ:ربنا لک الحمد،حمداً کثیراً طیباً
[1] فتح الباري (۲/ ۲۶۷) [2] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۴۳۷)