کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 170
چنانچہ ابو داود اور ترمذی وغیرہما میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ مت پڑھو،مگر سورت فاتحہ پڑھو،اس واسطے کہ جس نے سورت فاتحہ نہیں پڑھی،اس کی نماز نہیں۔[1] یہ حدیث بھی صحیح ہے۔بہت سے محدثین نے اس کے صحیح ہونے کی تصریح کی ہے۔ اور جتنی حدیثیں قراء ت فاتحہ خلف الامام کی ممانعت میں پیش کی جاتی ہیں،ان میں جو حدیثیں صحیح ہیں،ان سے ممانعت ثابت نہیں ہوتی اور جن سے ممانعت ثابت ہوتی ہے،وہ یا تو بالکل بے اصل ہیں یا ضعیف و ناقابلِ احتجاج ہیں۔علمائے حنفیہ میں سے صاحب التعلیق الممجد نے اس کی تصریح کر دی ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’لم یرد في حدیث مرفوع صحیح النھي عن قراء ۃ الفاتحۃ خلف الإمام،وکل ما ذکروہ مرفوعاً فیہ إما لا أصل لہ،وإما لا یصح‘‘ (التعلیق الممجد،ص:۱۰۱) یعنی کسی حدیث مرفوع صحیح میں قراء تِ فاتحہ خلف امام کی ممانعت نہیں وارد ہوئی ہے اور ممانعت کے بارے میں علمائے حنفیہ جتنی مرفوع حدیثیں بیان کرتے ہیں یا تو وہ بے اصل ہیں یا صحیح نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوفہ والوں سے ایک قوم کے سوا باقی تمام لوگ قراء تِ فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل ہیں۔عبداﷲ بن مبارک،جو بہت بڑے محدث اور فقیہ ہیں،فرماتے ہیں: ’’أنا أقرأ خلف الإمام والناس یقرؤون إلا قوم من الکوفیین‘‘ (جامع الترمذي،ص:۵۹) یعنی میں امام کے پیچھے قراء ت کرتا ہوں اور تمام لوگ امام کے پیچھے قراء ت کرتے ہیں،مگر کوفہ والوں میں سے ایک قوم۔ اور خود علمائے حنفیہ میں سے بعض لوگوں نے ہر نماز میں (سری ہو خواہ جہری) قراء تِ فاتحہ خلف امام کو مستحسن بتایا اور بعض لوگوں نے صرف نماز سری میں۔علامہ عینی شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں: ’’بعض أصحابنا یستحسنون ذلک علی سبیل الاحتیاط في جمیع الصلوات،و بعضھم في السریۃ فقط،وعلیہ فقہاء الحجاز والشام‘‘[2] انتھیٰ۔واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ [ہمارے اصحاب میں سے بعض احتیاط کی بنیاد پر تمام نمازوں میں اس کو مستحسن کہتے ہیں اور بعض صرف سری نمازوں میں،فقہائے حجاز و شام کا یہی موقف ہے] کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفی عنہ۔سید محمد نذیر حسین[3]
[1] مسند أحمد (۵/ ۳۲۱) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۸۲۳) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۳۱۱) [2] عمدۃ القاري (۶/ ۱۴) [3] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۳۹۹)