کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 165
وقت الزوال،ولا اعتداد بالظل الذي زالت علیہ في القامۃ،بل یعتبر ظلہ مفردا عن الزیادۃ‘‘[1] [زوال کے معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک لکڑی سیدھی کھڑی کی جائے،جب اس کا سایہ کم ہوتے ہوتے ایسی جگہ پہنچ جائے کہ اس کے بعد بڑھنے لگے تو یہی زوال کا وقت ہے،اب زوال کے وقت جو سایہ ہوتا ہے،اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا،بلکہ وہ سایہ معتبر ہوگا،جو اس کے بعد شروع ہوا ہے] طحطاوی میں ہے: ’’واستثنیٰ فییٔ الزوال لأنہ قد یکون مثلہ في بعض المواضع في الشتاء،وقد یکون مثلین،فلو اعتبر المثل أو المثلین من عند ذي الظل لما وجد الظھر عندھما ولا عندہ‘‘[2] [زوال کا سایہ اس سے مستثنیٰ ہوگا،کیوں کہ سردی میں یہ سایہ بعض جگہوں میں ایک مثل اور بعض جگہ دو مثل ہوجاتا ہے تو اگر ایک مثل یا دو مثل کا اعتبار اس سائے سے کیا جائے تو صاحبین اور امام صاحب دونوں فریق کے نزدیک ظہر کا وجود نہیں پایا جائے گا] شامی میں ہے: ’’إن وجد خشبۃ یغرزھا في الأرض قبل الزوال،وینتظر الظل ما دام متراجعا إلیٰ الخشبۃ،فإذا أخذ الظل في الزیادۃ حفظ الظل الذي قبلھا فھو ظل الزوال فإذا بلغ الظل طول القامۃ مرتین أو مرۃ سوی ظل الزوال فقد خرج وقت الظھر ودخل وقت العصر‘‘[3] [ایک لکڑی لے کر زوال سے پہلے زمین میں گاڑ دی جائے،پھر اس کا سایہ لکڑی کی طرف آتے ہوئے دیکھا جائے،جب سایہ بڑھنا شروع ہو تو پہلے سائے کو محفوظ کر لیا جائے،بس یہی زوال کا سایہ ہوگا،اب اس سائے کے علاوہ جب سایہ اس لکڑی کے برابر یا دگنا ہو جائے تو ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہوگا] شرح وقایہ میں ہے: ’’مثلا إذا کان فییٔ الزوال مقدار ربع المقیاس فآخر وقت الظھر أن یصیر ظلہ مثلي المقیاس وربعہ،ھذا في روایۃ عن أبي حنیفۃ رحمه اللّٰه،وفي روایۃ أخری عنہ،وھو قول أبي یوسف و محمد والشافعي:إذا صار ظل کل شییٔ مثلہ سوی فییٔ الزوال‘‘[4] [مثلاً جب زوال کا سایہ پیمانے کا ربع ہو تو جب یہ سایہ ایک ربع اور دو مثل ہوگا،یہی ظہر کا آخری وقت
[1] الثمر الداني (ص:۸۹) [2] حاشیۃ الطحطاوي علی الدر المختار (۱/ ۱۷۳۔۱۷۴) [3] رد المحتار (۳/ ۱۰۷) [4] شرح الوقایۃ مع عمدۃ الرعایۃ (۲/ ۲۰۲)