کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 162
ہے،اس کا سایہ دوپہر کے وقت آج کل شمال کو ہوتا ہے،اس سائے کو کچھ شمار نہ کرنا چاہیے،بلکہ اب جو سایہ مابین پورب و شمال کی جانب بڑھتا جائے،اس کو اس لکڑی کی جڑ سے لکڑی کے برابر ہونا چاہیے تو ظہر کا وقت ختم ہو کر عصر کا وقت شروع ہوتا ہے،یعنی جو سایہ بڑھتا جائے گا،اس کے سر سے سیدھی لکڑی جنوب کی طرف کھینچتے رہیں گے،جب اس لکڑی کی جڑ سے سرے تک برابر اس کی مقدار کے پورب کی طرف ہوجائے گا تو ایک مثل ہوگا۔یہ مطلب ہے حدیث ’’ظل الرجل کطولہ‘‘ کا،اور جو سایہ مابین مشرق و شمال کی طرف بڑھتا جائے گا،اس کا شمار نہ ہوگا،فقط۔ عمرو کہتا ہے:مطلب حدیث ’’ظل الرجل کطولہ‘‘ کا یہ ہے کہ جس طرف بغیر قید جہت کے کسی شے لکڑی وغیرہ کا سایہ بڑھے،بعد دلوک شمس اس کو برابر،یعنی ایک مثل لینا چاہیے،سوائے فے زوال،یعنی اصلی سایہ چھوڑ کر،وہ وقت عصر کا ہے۔یہی وقت بیان کیا ہے نواب صدیق الحسن خان صاحب نے ’’مسک الختام‘‘ میں زیرِ حدیث مذکور:’’بگردد سایہ شخص درازیٔ وے ورائے فی زوال‘‘ اور اسی کتاب (ص:۱۲۹) میں ہے:شاہ ولی اﷲ در مصفی گفتہ کہ باشد سایہ ہر چیز مانند قامت آن چیز سوائے فے زوال‘‘ اور امام شوکانی نے نیل میں (ص:۲۹۰) ’’بمصیر ظل الشییٔ مثلہ غیر الظل الذي یکون عند الزوال دخل وقت العصر‘‘ اور قاضی ثناء اﷲ صاحب نے ’’ما لا بد منہ‘‘ میں ’’سایہ ہر چیز ہم چند او شود سوائے سایہ اصلی‘‘ اور وقت ظہر بعد دلوک شمس ہوگا کہ وہ اندازہ ساڑے بارہ بجے ہے،اس سے پیشتر نماز ظہر درست نہ ہوگی،کیونکہ نقشہ تصدیق کردہ شاہ ولی اﷲ صاحب میں ماہ حال،یعنی شروع پھاگن میں وقت درمیان طلوع آفتاب و زوال جو وہ گھڑی ہے،اس وقت سورج سات بجے کے قریب نکلتا ہے تو حساب سے چودہ گھڑی ساڑے بارہ بجے ہی ہے اور اپنا تجربہ بھی یہی ہے اور وقت عصر اب نصف پھاگن میں اندازہ پونے چار بجے کے بعد ہوتا ہے،جو اس سے پیشتر نماز عصر پڑھے گا،اس کی نماز عصر صحیح نہیں ہوگی،کیونکہ نصف پھاگن میں سات انگل کی لکڑی کا اصل سایہ پانچ انگل ہے اور وقت سے پہلے نماز درست نہیں۔ اب علمائے ربانی سے استفسار ہے کہ موافق مذہب اہلِ حدیث کس کا مطلب و پیمایش درست ہے؟ جواب:زید کا قول صحیح نہیں۔عمرو کا قول مطابق حدیث و علمائے مذاہبِ اربعہ و مشاہدہ کے ہے۔ابو داود میں عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ’’کانت قدر صلاۃ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في الصیف ثلاثۃ أقدام إلی خمسۃ أقدام،وفي الشتاء خمسۃ أقدام إلی سبعۃ أقدام‘‘[1] [نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا اندازہ گرمیوں میں تین اقدام سے پانچ اقدام تک تھا اور سردیوں میں پانچ
[1] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۴۰۰) اس حدیث کو امام حاکم،ذہبی اور البانی رحمہم اللہ نے صحیح کہا ہے۔