کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 160
وعدمہ إلا عند الافتتاح،وما عدا ذلک إن ترک فھو حسن،وإن فعل فلا بأس بہ‘‘ انتھیٰ [آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا عمل اس میں مختلف رہا ہے،ہاں نماز شروع کرتے وقت رفع یدین کرنے میں اختلاف نہیں ہے اور اس کے علاوہ اور جگہوں میں اگر رفع یدین نہ کرے تو بہتر ہے اور اگر کرے تو کوئی حرج نہیں ہے] شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب ’’صراطِ مستقیم‘‘ میں طرفین کے استدلالات بیان کر کے یوں کہتے ہیں:’’پس چارہ نیست از سنیت ہر دو فعل‘‘ انتھی ’’رفع الیدین لا یفسد الصلاۃ،کذا في الفتاویٰ العالمگیریۃ[1] وغیرھا،وفي الذخیرۃ:رفع الیدین لا یفسد الصلاۃ،وکذا في جامع الفتاویٰ:لأن مفسدھا ما لم یعرف قربتہ فیھا،انتہی ما في لسان الاھتداء في بیان الاقتداء للشیخ علی القاري،واللّٰه أعلم بالصواب۔ [رفع یدین کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی،کیوں کہ نماز اس فعل سے فاسد ہوتی ہے،جس سے خدا کا قرب حاصل نہ ہو ] حررہ:السید شریف حسین،عفي عنہ۔ سید محمد نذیر حسین هو الموافق مولانا بحر العلوم عبدالعلی حنفی نے نفسِ تامین کو سنت ٹھہرایا ہے اور بالجہر اور بالسر دونوں کو مندوب بتایا ہے،چنانچہ ’’ارکانِ اربعہ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’أما تأمین الإمام والمأموم فلما روی مسلم عن أبي ھریرۃ قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:((إذا أمن الإمام فأمنوا،فإنہ من وافق تأمینہ تأمین الملائکۃ غفرلہ ما تقدم من ذنبہ )) وأما الإسرار بالتأمین فھو من مذھبنا،ولم یرد فیہ إلا ما روی الحاکم عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ أنہ صلیٰ مع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فإذا بلغ {وَلَا الضَّالِیْنَ} قال:آمین،وأخفی بھا صوتہ،وھو ضعیف،وقد بین في فتح القدیر وجہ ضعفہ،لکن الأمر فیہ سھل فإن السنۃ التأمین،أما الجھر والإخفاء فندب‘‘ انتھیٰ کلامہ۔ [امام اور مقتدی کا آمین کہنا تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو،جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو جائے گی،اس کے پہلے گناہ معاف ہو جائیں گے‘‘ ہمارا مذہب یہ ہے کہ آمین آہستہ کہی جائے اور اس کی دلیل علقمہ
[1] الفتاویٰ الھندیۃ (۱/ ۱۰۳)