کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 159
[متقدمین قرآن مجید کو غلاف میں بند کرنا مکروہ سمجھتے تھے،تاکہ تلاوت قرآن سے منع کی صورت نہ بنے اور مسجد سے روکنا تو اس سے بھی بدتر ہے،کیوں کہ قرآن تو کسی آدمی کی ملکیت ہوتا ہے اور مسجد کسی کی ملکیت نہیں ہوتی،اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ کسی آدمی کو مسجد میں داخل ہونے سے روکا جائے،خصوصاً کسی دنیوی عداوت سے۔یہ سب جہالت کی باتیں ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ یہ کبیرہ گناہ ہو،کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:’’مسجدیں اﷲ کی ہیں ‘‘ تو کسی آدمی کو جائز نہیں کہ کسی مسجد سے مسلمان کو عبادت کرنے سے روکے،کیوں کہ مسجدیں تو بنائی ہی اس لیے جاتی ہیں،مثلاً نماز،اعتکاف،شرعی تعلیم و تعلم اور قرآن کی تلاوت کے لیے،اگر کوئی آدمی کسی خاص محلہ والوں کے لیے مسجد بنائے تو دوسرے محلے والوں کو بھی حق پہنچتا ہے کہ اس میں آکر نماز پڑھ لیں ] آمین و رفع یدین احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے،جیسا کہ صحاحِ ستہ کے عالم پر مخفی نہیں ہے۔علمائے حنفیہ بھی ان کے صحیح ہونے کے قائل ہیں اور فقہا نے بھی لکھا ہے کہ آمین و رفع الیدین مفسدِ صلاۃ نہیں ہیں،پس عاملین بالحدیث کو مسجد میں نہ جانے دینے کی کیا وجہ؟ سوائے عداوت و تعصب مذہب کے اور کوئی وجہ نہیں ہے۔ قال في رفع الیدین وعدمہ:’’والکل سنۃ،وأخذ بکل واحد جماعۃ من الصحابۃ والتابعین ومن بعدھم،وھذا أحد المواضع التي اختلف فیھا الفریقان أھل المدینۃ والکوفۃ،ولکل واحد أصل أصیل،والحق عندي في مثل ذلک أن الکل سنۃ،ونظیرہ الوتر برکعۃ واحدۃ وبثلاث،والذي یرفع أحب إلي ممن لا یرفع،فإن أحادیث الرفع أکثر وأثبت‘‘[1] کذا في حجۃ اللّٰه البالغۃ للشیخ ولي اللّٰه المحدث الدھلوي۔قدس سرہ۔ [رفع یدین کرنا اور نہ کرنا دونوں سنت ہیں اور ہر ایک مسلک کو صحابہ،تابعین اور بعد کے لوگوں کی ایک جماعت نے پسند کیا ہے،یہ ان مواقع میں سے ایک ہے،جن میں مدینہ اور کوفہ والوں کا اختلاف ہے اور فریقین کے پاس دلائل ہیں۔میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ دونوں سنت طریقے ہیں اور اس کی مثال ایک یا تین رکعت وتر پڑھنا ہے،البتہ رفع الیدین کرنے والے مجھے نہ کرنے والوں سے زیادہ محبوب ہیں،کیوں کہ رفع یدین کرنے کی حدیثیں زیادہ بھی ہیں اور صحیح بھی ہیں ] مولانا بحر العلوم حنفی رفع الیدین کے بارے میں رفع اور عدمِ رفع کی حدیثیں نقل کر کے اپنی کتاب ’’ارکانِ اربعہ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’فقد تلخص أن فعلہ صلی اللّٰه علیہ وسلم کان مختلفا،وفعل الصحابۃ أیضاً کان مختلفا في الرفع
[1] حجۃ اللّٰه البالغۃ (ص:۴۳۴)