کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 157
نہیں ہے اور نیچے کی منزل کو واسطے خرچ مسجد کے کرائے پر دینا بھی جائز ہے،کیونکہ عدمِ جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے۔فقہائے حنفیہ نے بھی تصریح کی ہے کہ ایسی صورت میں مسجد،مسجد کے حکم میں رہے گی۔در مختار میں ہے: ’’لو بنیٰ بیتا فوقہ للإمام لا یضر،لأنہ من المصالح،أما لو تمت المسجدیۃ،ثم أراد البناء منع،ولو قال:عینت ذلک،لم یصدق‘‘[1] [اگر مسجد کے اوپر امام کی رہایش کے لیے مکان بنایا جائے تو درست ہے،کیوں کہ یہ مسجد ہی کی آبادی ہے،ہاں اگر مسجد پوری ہوجائے،پھر اس پر مکان بنایا جائے تو منع ہے اور اگر کہے کہ میری پہلے ہی سے یہ نیت تھی تو اس کو سچا نہ سمجھا جائے گا] شامی میں ہے: ’’یؤخذ من التعلیل أن محل عدم کونہ مسجدا فیما إذا لم یکن وقفا علی مصالح المسجد،وبہ صرح في الإسعاف،فقال:وإذا کان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو کانا وقفا علیہ صار مسجدا‘‘ [اس تعلیل سے یہ بات اخذ کی جاتی ہے کہ اگر وہ گھر وغیرہ مسجد کے مفادات کے لیے وقف نہیں تو وہ مسجد کے حکم میں نہیں۔إسعاف میں وضاحت ہے کہ اگر مسجد ہی کی مصلحت کے لیے اس کے نیچے تہ خانہ یا اوپر کوئی مکان بنایا جائے یا وہ مسجد کے لیے وقف ہوں تو درست ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو جائز نہیں ] نیز شامی میں ہے: ’’بقي لو جعل الواقف تحتہ بیتا للخلاء،ھل یجوز کما في مسجد محلۃ الشحم في دمشق؟ لم أرہ صریحاً،نعم سیأتي متنا في کتاب الوقف أنہ لو جعل تحتہ سردابا لمصالحہ جاز‘‘[2] انتھی [اگر وقف کرنے والا مسجد کے نیچے کوئی بیت الخلا بنائے تو جائز ہے یا نہیں جس طرح دمشق کے محلہ شحم کی مسجد میں ہے،اس کی صاف جزئی تو میں نے کہیں دیکھی نہیں،کتاب الوقف میں ہے کہ اگر مسجد کے نیچے کوئی تہ خانہ بنائے یا اس کے اوپر کوئی مکان مسجد کی مصلحت کے لیے بنائے تو جائز ہے] فقہ حنفی کی رو سے بھی نیچے کی منزل کو مصارفِ مسجد کے واسطے کرائے پر دینے کا جواز مستفاد ہوتا ہے۔واللّٰه تعالیٰ أعلم۔کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[3]
[1] الدر المختار (۴/ ۳۵۸) [2] رد المحتار (۵/ ۷۶) [3] فتاویٰ نذیریہ (۱/ ۳۶۵)