کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 149
محراب المسجد،وھو صدرہ،وأشرف موضع فیہ‘‘ انتھیٰ [اس میں ان کا محراب داخل ہے اور وہ عالی جگہ کو کہتے ہیں،نیز اس کا مطلب ہے محرابِ مسجد بھی اس میں شامل ہے اور وہ مسجد کا صدر مقام اور اس کی سب سے زیادہ شرف والی جگہ ہوتی ہے] قاموس میں ہے: ’’المحراب۔بالکسر:الغرفۃ،وصدر البیت وأکرم مواضعہ،ومقام الإمام من المسجد،والموضع الذي ینفرد بہ الملک فیتباعد عن الناس‘‘[1] انتھیٰ [محراب،میم کے کسرے سے،کمرے کو کہتے ہیں،اسی طرح صدر بیت اور اس کی سب سے باعزت جگہ کو کہا جاتا ہے،نیز یہ مسجد میں امام کی جگہ کو کہتے ہیں،اس جگہ کو بھی محراب کہتے ہیں جو بادشاہ کے لیے ہو اور دوسرے لوگ اس سے دور رہیں ] پس ہو سکتا ہے کہ اس روایت میں محراب سے مراد صدرِ مسجد ہو اور ’’فنہض إلی المسجد فدخل المحراب۔۔۔‘‘ کا مطلب یہ ہو کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی طرف اٹھے،پس صدرِ مسجد میں داخل ہوئے،یعنی اس جگہ گئے جہاں آپ امامت کے لیے کھڑے ہوتے تھے۔بنا بریں سنن کبری کی روایت عصرِ نبوی میں محراب مروجہ فی زماننا کے موجود ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔ ثالثاً اس وجہ سے کہ اس روایت میں محراب مروجہ فی زماننا کا مراد ہونا موقوف ہے اس امر پر کہ عصرِ نبوی میں مسجد نبوی میں یا کسی اور مسجد میں محراب مروجہ کا موجود ہونا ثابت ہو،لیکن عصرِ نبوی میں مسجدِ نبوی یا کسی اور مسجد میں محراب مروجہ کا موجود ہونا ثابت نہیں،بلکہ روایات منقولہ فی السوال سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ مسجدِ نبوی میں محراب مروجہ نہیں تھے۔بنا بریں سنن کبری کی روایت میں محراب سے محراب مروجہ مراد نہیں ہوسکتا۔واضح ہو کہ اہلِ علم کے اقوال سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عصرِ نبوی میں محراب مروجہ کا وجود نہیں تھا۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں حدیث:’’کان جدار المسجد عند المنبر ما کادت الشاۃ تجوزھا۔۔۔‘‘[2] کے تحت میں لکھتے ہیں: ’’فإن قیل:من أین یطابق الترجمۃ؟ أجاب الکرماني فقال:من حیث أنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم کان یقوم بجنب المنبر،لأنہ لم یکن لمسجدہ محراب،فتکون مسافۃ ما بینہ وبین الجدار نظیر ما بین المنبر والجدار۔۔۔الخ‘‘[3] [پھر اگر کہا جائے کہ ترجمۃ الباب کی مطابقت کہاں سے ثابت ہوئی؟ کرمانی نے جواب دیا اور کہا ہے:
[1] القاموس المحیط (ص:۷۳) [2] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۷۵) [3] فتح الباري (۱/ ۵۷۵)