کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 141
میں اس کو نماز گاہ بنا لوں۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عن قریب میں ایسا کروں گا۔ان شاء اﷲ] نیز صفحہ (۴۸۸) میں ہے: ’’قال ابن عباس لمؤذنہ في یوم مطیر:إذا قلت:أشھد أن محمداً رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم،فلا تقل:حي علیٰ الصلاۃ،قل:صلوا في بیوتکم۔فکأن الناس استنکروا،فقال:فعلہ من ھو خیر مني،إن الجمعۃ عزمۃ،وإني کرھت أن أحرجکم فتمشون في الطین والدحض‘‘[1] واللّٰه أعلم بالصواب۔ [سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بارش والے دن اپنے موذن سے کہا:جب تم (اذان میں)’’أشھد أن محمدا رسول اللّٰه ‘‘ کہو تو پھر ’’حي علیٰ الصلاۃ‘‘ نہ کہو،بلکہ کہو:’’صلوا في بیوتکم‘‘ (اپنے گھروں میں نماز پڑھو) جب لوگوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو انھوں نے فرمایا:یہ کام اس ہستی (رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم)نے کیا ہے،جو مجھ سے بہت بہتر تھی۔بے شک جمعہ لازم ہے،لیکن میں نے ناپسند کیا کہ تم کو باہر نکالوں،پھر تم مٹی اور کیچڑ میں چل کر آؤ] کتبہ:محمد عبد اللّٰه۔الجواب صحیح عندي،واللّٰه أعلم بالصواب۔أبو محمد إبراہیم۔صح الجواب،واللّٰه أعلم بالصواب۔کتبہ:أبو الفیاض محمد بن عبد القادر الأعظم گڈھی المؤی،مدرسہ أحمدیہ آرہ۔الجواب صحیح۔کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري۔[2] باہمی رنجش کی وجہ سے نئی مسجد بنانا: سوال:آپس کی رنجش و ضد کی وجہ سے کسی مسجد کو چھوڑ کر اور دوسروں سے چھڑوا کر کسی دوسرے مکان میں نماز پڑھنا اور جماعت و جمعہ وغیرہ قائم کرنا اور اس میں عشرہ محرم میں بڑی تیاری کے ساتھ تعزیہ داری کی مجلس کرنا یا کوئی دوسری مسجد بنا کر (اور سابق مسجد خود چھوڑ کر اور دوسروں سے چھڑوا کر) جماعت و جمعہ قائم کرنا درست ہے یا نہیں اور کرنے والا و بنانے والا اس کا کیسا ہے؟ صاف صاف خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق لکھ بھیجیں،خدا اس کا اجر دے گا۔ جواب:کسی مسجد کو خود چھوڑ کر اور دوسروں سے چھڑوا کر کسی دوسرے مکان میں یا دوسری مسجد بنا کر نماز پڑھنا اور جماعت و جمعہ قائم کرنا،اگر اس وجہ سے ہے کہ سابق مسجد میں خدا کی عبادت بطریق مشروع و مسنون ادا کرنے سے روکا جاتا ہے تو یہ چھوڑنا اور چھڑانا اور دوسری مسجد بنانا جائز ہے،لیکن اگر اس و جہ سے ہے کہ یہ سابق مسجد میں خلافِ شرع کام کرنا چاہتا ہے اور اس سے لوگ روکتے ہیں یا دنیاوی رنجش و ضد کی وجہ سے دوسری مسجد بناتا ہے تو
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۸۵۹) [2] مجموعہ فتاویٰ غازی پوری،(ص:۱۰۴)