کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 138
ہیں،صرف ابو قیس جراب کا تذکرہ کرتے ہیں۔بیہقی نے کہا:یہ حدیث منکر ہے،اس کو سفیان ثوری،عبدالرحمان بن مہدی،احمد بن حنبل،یحییٰ بن معین،علی بن مدینی اور امام مسلم نے ضعیف کہا ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ ابن دقیق العید نے اس کی تصحیح پر اعتماد کیا ہے اور کہا ہے کہ ابو قیس کی روایت دوسروں کے مخالف نہیں ہے،کیوں کہ وہ تو ایک امر زائد بیان کر رہے ہیں۔اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس روایت کے یہ الفاظ ہوتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر اور جرابوں اور جوتی پر مسح کیا تو ایک امر زائد تھا،لیکن اس نے تو موزے کے بجائے جراب اور جوتی کا ذکر کیا ہے تو یہ امر زائد نہیں ہے،بلکہ ثقات کی مخالفت ہے۔باقی رہا ترمذی کا اس کو حسن صحیح کہنا تو امام نووی نے کہا ہے کہ جن لوگوں نے اس حدیث کی تضعیف کی ہے،ان میں سے ہر ایک امام ترمذی سے مقدم ہے اور پھر یہ اصول بھی ہے کہ جرح تعدیل پر مقدم ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ لفظ جراب مختلف المفہوم ہے،موزے کے اوپر جو لفافہ پہنا جاتا ہے،اس کو جرموق کہتے ہیں اور جرموق پر جو پہنا جاتا ہے،اس کو جراب کہتے ہیں تو ممکن ہے جراب سے چمڑے کا وہ لفافہ مراد ہو جو جرموق پر پہنا جاتا ہے۔تو میں کہتا ہوں کہ یہ دلیل تو ہماری ہوگی نہ کہ تمھاری،اور پھر یہ بھی خیال کرنا چاہیے کہ جراب پر مسح کرنے والوں کا مقصد تو یہ ہے کہ صرف جراب پر مسح کرنا جائز ہے،حالاں کہ اس حدیث میں جراب اور جوتی پر مسح کا ذکر ہے،یعنی جراب کے اوپر جوتی پہنے ہوئے آپ نے مسح کیا،صرف جراب پر مسح نہیں کیا۔ یہاں ایک اور خدشہ بھی ہے کہ جراب سوتی بھی ہوتی ہے اور اونی بھی،موٹی بھی اور باریک بھی اور وہ بھی جس کے نیچے چمڑا لگا ہوتا ہے تو جب تک کسی خاص لفظ سے پتا نہ چلے کہ وہ جراب جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسح کیا،وہ چمڑے والی نہ تھی،تب تک مجوزین کا مقصود ثابت نہیں ہوسکتا،کیوں کہ چمڑے والی جراب تو موزے ہی کے حکم میں ہے۔اگر کہا جائے کہ دوسری جراب کا بھی احتمال تو ہے تو میں کہتا ہوں کہ اس میں جب صراحت نہیں ہے تو نفس مطمئن نہیں ہوسکتا اور حضور نے فرمایا ہے:’’شک کرنے والی چیز کو ترک کر دو۔‘‘ باقی رہا صحابہ کرام کا عمل تو ان سے مسح جراب ثابت ہے اور تیرہ صحابہ کرام کے نام صراحت سے معلوم ہیں کہ وہ جراب پر مسح کیا کرتے تھے،یعنی حضرت علی،عمار،،ابو مسعود انصاری،انس،ابن عمر،براء بن عازب،حضرت بلال،عبداﷲ بن ابی اوفی،سہل بن سعد،ابو امامہ،عمرو بن حریث،عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم،اگر حدیثِ مرفوع کے بجائے ان کے عمل سے استدلال کیا جائے تو یہ اس سے بہتر ہے،لیکن ان کے عمل میں ایک اور شبہہ پیدا ہوتا ہے،وہ یہ کہ یہ فعل ایک ایسا کام ہے،جس میں اجتہاد کو دخل ہے اور جس میں