کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 128
میں لکھا تھا کہ ’’ماکول اللحم کے پیشاب و پائخانہ کی طہارت حدیث عرنیین[1] اور حدیث (( صَلُّوْا فِيْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ )) [2] سے ثابت ہے۔نیز موطا امام محمد رحمہ اللہ کی ایک روایت سے ماکول اللحم کے بول و براز کی طہارت ثابت ہے۔[3] میرے اس تعاقب کا جواب مولوی گلزار احمد صاحب نے اخبار ’’اہلحدیث‘‘ (مجریہ ۲۴/ محرم) میں دیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مطلقاً ہر جانور ماکول و غیر ماکول کا پیشاب و پائخانہ حرام و نجس ہے،چنانچہ حدیث عرنیین کا جواب آپ نے یہ دیا ہے کہ اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں ہے،کیونکہ یہ بوقت ضرورت ہے،کما قال الحافظ ابن حجر:وأما في حال الضرورۃ فلا یکون حراما۔۔۔‘‘ میں کہتا ہوں کہ مولوی گلزار احمد صاحب نے جو فتح الباری کی عربی عبارت نقل کی ہے،وہ ابن العربی کا قول ہے۔حافظ ابن حجر نے ابن العربی کا قول نقل کر کے اس کا جواب بھی دیا ہے،چنانچہ لکھا ہے: ’’ھذا وما تضمنہ کلامہ أن الحرام لا یباح إلا لأمر واجب،غیر مسلم،فإن الفطر في رمضان حرام،ومع ذلک فیباح لأمر جائز کالسفر‘‘[4] انتھیٰ کلامہ [ان کا یہ کلام اس چیز کو متضمن ہے کہ حرام صرف کسی امر واجب کی بنا پر ہی مباح ہوتا ہے،قابلِ تسلیم نہیں ہے،پس بلاشبہہ رمضان میں روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے،مگر اس کے باوجود کسی جائز کام کے لیے جائز ہے،جیسے سفر] مگر تعجب ہے کہ مولوی صاحب نے حافظ کے جواب سے عمداً چشم پوشی کیوں کی؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے واضح ہو کہ جن علما نے حدیثِ عرنیین سے بوقتِ ضرورت و بحالتِ اضطرار تداوی بالحرام کو جائز بتایا ہے،ان کا فتویٰ صحیح نہیں ہے۔(ملاحظہ ہو:تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی:۳/ ۱۶۱ و ابکار المنن،ص:۴۳) مولوی گلزار احمد صاحب نے حدیث (( صلوا في مرابض الغنم )) کا یہ جواب تحریر فرمایا ہے کہ مرابضِ غنم میں نماز پڑھنے کی اجازت مسجد نہ ہونے کی صورت میں ہے۔صحیح بخاری میں ہے:’’کَانَ یُصَلِّيْ فِيْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ
[1] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۳۹۵) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۶۷۱) [2] مسند أحمد (۲/ ۲۰۹) [3] أیضاً روی الترمذي عن ابن عباس:طاف النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم علیٰ راحلتہ۔تمسک الموالک بھا علیٰ طھارۃ أبوال ما یؤکل لحمہ وأزبالہ،فإنھا لو لم تکن طاھرۃ لما أدخل النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ناقتہ في المسجد الحرام۔(العرف الشذي،ص:۳۵۰) عن أم سلمۃ زوج النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أنھا قالت:اشتکیت فذکرت ذلک لرسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال:طوفي من وراء الناس وأنت راکبۃ،قالت:فطفت۔قال في التعلیق الممجد:فیہ أیضاً جواز إدخال الدابۃ في المسجد إذا أمن التلویث،واستنبط منہ طائفۃ طھارۃ بول مأکول اللحم وبعرہ (ص:۲۲۶) [مولف] [4] فتح الباري (۱/ ۳۳۹)