کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 126
عن شریک۔قلت:وھذا لا یضر،لأن إسحاق إمام مخرج عنہ في الصحیحین،فیقبل رفعہ وزیادتہ‘‘[1] انتھیٰ [منتقیٰ کی شرح میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد مصنف نے کہا ہے کہ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے:اس کو اسحاق ازرق کے سوا کسی نے شریک سے مرفوع بیان نہیں کیا ہے۔میں کہتا ہوں کہ یہ کوئی ضرر رساں بات نہیں ہے،اس لیے کہ اسحاق امام ہے،جن سے بخاری و مسلم میں روایات مروی ہیں،لہٰذا ان کا مرفوع بیان کرنا اور ان کی زیادتی مقبول ہے۔‘‘ نیز ان لوگوں کی ایک دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کپڑے سے منی کو اذخر کی جڑ سے پونچھتے تھے،پھر اس میں نماز پڑھتے تھے اور جب خشک ہوتی تو کپڑے سے کھرچتے تھے،پھر اس میں نماز پڑھتے تھے۔أخرجہ أحمد في مسندہ،وذکرہ في المنتقیٰ۔[2] جو علما منی کو ناپاک کہتے ہیں،ان کی دلیل وہ حدیثیں ہیں،جن میں منی کے دھونے کا ذکر ہے۔وہ کہتے ہیں کہ منی اگر پاک ہوتی تو اس کے دھونے کی کیا ضرورت تھی؟ جو چیز نجس و ناپاک ہوتی ہے،وہی دھوئی جاتی ہے۔ان لوگوں کی ایک دلیل عمار کی یہ مرفوع روایت ہے کہ نہ دھویا جائے کپڑا مگر پائخانہ و پیشاب اور مذی اور منی اور خون اور قے سے۔مگر یہ روایت ضعیف ہے۔[3] دیکھو:نیل الاوطار (۱/ ۵۴) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ منی کے دھونے اور منی کے کھرچنے کی حدیثوں میں تعارض نہیں ہے،کیونکہ جو لوگ منی کے پاک ہونے کے قائل ہیں،ان کے قول پر ان احادیث میں تطبیق و توفیق واضح ہے،بایں طور کہ دھونے کو استحباب پر محمول کریں تنظیف کے لیے،نہ وجوب پر،اور یہ شافعی اور احمد اور اہلِ حدیث کا طریقہ ہے اور جو لوگ منی کی نجاست کے قائل ہیں،ان کے قول پر بھی ان احادیث میں تطبیق ممکن ہے،بایں طور کہ دھونے کو تر منی پر محمول کریں اور کھرچنے کو خشک پر،اور یہ حنفیہ کا طریقہ ہے۔پھر حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ پہلا طریقہ ارجح ہے،کیونکہ اس میں حدیث اور قیاس دونوں پر عمل ہوتا ہے،اس واسطے کہ منی اگر نجس ہوتی تو قیاس یہ تھا کہ اس کا دھونا واجب ہوتا اور اس کا صرف کھرچنا کافی نہ ہوتا،جیسے خون وغیرہ ہے اور دوسرے طریقے کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت رد کرتی ہے کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کو اذخر کی جڑ سے دور کرتی تھیں،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں نماز پڑھتے تھے اور جبکہ منی خشک ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے کھرچتی تھیں،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں نماز پڑھتے تھے،اس واسطے کہ یہ روایت متضمن ہے ترکِ غسل پر،منی کے تر ہونے کی حالت میں بھی اور خشک ہونے کی حالت
[1] نیل الأوطار (۱/ ۶۵) [2] مسند أحمد (۶/ ۲۴۳) صحیح ابن خزیمۃ (۱/ ۱۴۹) نیل الأوطار (۱/ ۶۴) [3] مسند البزار (۱/ ۲۴۲) اس کی سند میں ’’ثابت بن حماد‘‘ راوی سخت ضعیف ہے۔دیکھیں:لسان المیزان (۲/ ۷۵)