کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 117
وذلک سنۃ ثمان وثلاثین،واجتمع الناس بأذرح في شعبان من ھذہ السنۃ،وحضرھا سعد بن أبي وقاص وابن عمر وغیرھما من الصحابۃ فقدم عمرو أبا موسیٰ الأشعري مکیدۃ منہ فتکلم فخلع علیا،وتکلم عمرو فأقرّ معاویۃ،وبایع لہ فتفرق الناس علیٰ ھذا،وصار علي في خلاف مع أصحابہ حتی صار یعض علیٰ أصبعہ،ویقول:أعصی ویطاع معاویۃ‘‘[1] انتھیٰ۔واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ [پھر معاویہ بن ابو سفیان اور ان کے ساتھی شام سے نکلے،حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع پہنچی تو آپ بھی لشکر لے کر نکل پڑے،دونوں فوجوں کا مقامِ صفین میں آمنا سامنا صفر ۳۷ھ میں ہوگیا۔کئی روز تک جنگ ہوتی رہی۔عمرو بن العاص کی تدبیر کے مطابق شامیوں نے قرآنِ مجید کو بلند کیا کہ آؤ اس پر فیصلہ کر لو،یہ ایک جنگی چال تھی،اس کے بعد لوگوں نے جنگ کرنا پسند نہ کیا اور صلح کی دعوت دینے لگے،دو حکم مقرر ہوئے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم حضرت ابو موسیٰ اشعری تھے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم حضرت عمرو بن العاص۔آپس میں ایک تحریر ہوئی کہ ایک سال کے بعد مقامِ اذرح میں اجتماع ہوگا اور اس معاملے پر غور کیا جائے گا۔لوگ منتشر ہوگئے۔امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شام کو چلے گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ کو۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سے خارجی آپ کے مخالف ہوگئے اور کہنے لگے کہ حکم صرف اﷲ ہے،پھر وہ مقامِ حروراء میں لشکر اکٹھا کرنے لگے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کو روانہ کیا۔آپ نے ان سے گفتگو کی اور ان پر حجت قائم کی،ان میں سے کچھ لوگ تو واپس گئے اور کچھ بغاوت پر قائم رہے اور نہروان کو چلے گئے،انھوں نے ڈاکے مارنے شروع کر دیے،حضرت علی رضی اللہ عنہ لشکر لے کر وہاں پہنچے اور ان کو قتل کیا،یہ واقعہ ۳۸ھ میں ہوا،پھر لوگ شعبان ۳۸ھ میں اذرح کے مقام پر جمع ہوئے۔سعد بن ابی وقاص اور ابن عمر بھی آئے۔عمرو نے ابو موسیٰ اشعری کو اعلان کے لیے پہلے کھڑا کر دیا،انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا،پھر عمرو نے اُٹھ کر گفتگو کی اور معاویہ کو برقرار رکھا اور ان کی بیعت کی۔لوگ اسی حالت میں منتشر ہوگئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں پھوٹ پڑ گئی،یہاں تک کہ آپ نے حسرت سے اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبائیں اور فرمایا:میری نافرمانی ہوتی ہے اور معاویہ کی فرمانبرداری کی جاتی ہے] واللّٰه أعلم بالصوب حررہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2] سید محمد نذیر حسین
[1] تاریخ الخلفاء (ص:۷) [2] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۳۴۹)