کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 109
’’رجب شھر اللّٰه،وشعبان شھري،و رمضان شھر أمتي‘‘ [رجب اﷲ کا مہینا ہے،شعبان میرا مہینا ہے اور رمضان میری امت کا مہینا ہے] جواب:ما سوائے حدیث نمبر4 کے باقی سب حدیثیں موضوع ہیں اور موضوع حدیث کو موضوع جان کر بیان کرنا حرام ہے اور داخل وعید ہے۔امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں: ’’یحرم روایۃ الحدیث الموضوع علیٰ من عرف کونہ موضوعا أو غلب علی ظنہ وضعہ،فمن رویٰ حدیثاً علم وضعہ أو ظن وضعہ فھو مندرج في الوعید‘‘[1] [حدیث موضوع کی روایت کرنا اس آدمی پر حرام ہے،جس کو اس کے موضوع ہونے کا علم ہو یا غالب ظن اس کے موضوع ہونے کا ہو اور جو ایسی حدیث جانتے ہوئے روایت کرے،جو موضوع یا بظنِ غالب موضوع ہو تو وہ وعید میں شامل ہے] ہاں حدیث نمبر1 کی نسبت ملا علی قاری اپنے موضوعات میں لکھتے ہیں: ’’قال الصغاني:إنہ موضوع،کذا في الخلاصۃ،لکن معناہ صحیح،فقد روی الدیلمي عن ابن عباس مرفوعاً:أتاني جبرئیل فقال:یا محمد! لولاک ما خلقت الجنۃ،ولولاک ما خلقت النار‘‘[2] [صغانی نے کہا:یہ حدیث موضوع ہے،لیکن اس کا معنی صحیح ہے۔ابن عباس نے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ جبرائیل نے میرے پاس آکر بیان کیا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )! اگر تو نہ ہوتا تو میں جنت اور دوزخ کو پیدا نہ کرتا] نیز حدیث نمبر 2 کی نسبت لکھتے ہیں کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس میں سکوت کیا ہے،لہٰذا بعد ثبوت وضع حدیث نمبر1 کے اس کو حدیث قدسی کہنا محض خطا ہے،نیز حدیث نمبر 4 بھی قدسی نہیں ہے۔اس لیے کہ عبارت ’’کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ خود اس پر دال ہے کہ یہ قول اﷲ عزوجل کا نہیں،کیونکہ حدیث قدسی اس حدیث کو کہتے ہیں،جو بواسطہ جبریل یا بلا واسطہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ سے پہنچی ہو،اسی وجہ سے جو حدیث قدسی ہوتی ہے،عبارت اس کی یوں ہوتی ہے:قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال اللّٰه عزوجل۔ حررہ:عبدالوہاب،عفی عنہ۔ هوالموافق حدیث نمبر 4 کو ابن جوزی نے موضوع کہا ہے،مگر حق یہ ہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں ہے۔حاکم نے مستدرک میں اس کو صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں حاکم کی تصحیح کو برقرار رکھا ہے،کما في
[1] شرح صحیح مسلم (۱/ ۷۱) [2] الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ (ص:۲۹۵) اس روایت کی تائید میں ذکر کردہ دیلمی کی روایت بھی صحیح نہیں،لہٰذا یہ معنی اور روایت دونوں ہی درست نہیں۔دیکھیں:السلسلۃ الضعیفۃ،رقم الحدیث (۲۸۳)